کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 206
مبرّا ہیں ، لہٰذا انھیں کسی تنقید و اعتراض کے بغیر آنکھیں بند کر کے ہی قبول کرنا لازم ہے۔اس میں ’’ہاں ‘‘ یا ’’نہیں ‘‘ کہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ مذہب پر پادریوں کی مکمل اجارہ داری تھی جس پر کسی کو اعتراض کرنے کی قطعاً اجازت نہ تھی۔ چونکہ میری عقلِ سلیم اور میرے ضمیر کو پادریوں کے مسلط کردہ عقائد و تعلیمات پر دیانت داری سے عمل کرنا گوارا نہ تھا، اس لیے بظاہر اس مذہب سے وابستہ رہنا منافقت ہوتا جس کی اجازت میری روح نہیں دے سکتی تھی، لہٰذا میرے لیے اب واحد متبادل راستہ یہ تھا کہ اس مذہب سے روگردانی کرکے اپنے پسندیدہ عقائد اور نظریات کے مطابق زندگی بسر کروں ۔ یہ تو ٹھیک تھا مگر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے ایمان کے لیے کوئی بنیاد درکار ہے، تو میں نے اپنے آپ سے پوچھا: ’’میرے اصل عقائد اور نظریات کیا ہیں اور میں صدق دل سے کن پر ایمان رکھتا ہوں ؟‘‘ ٭ توحید پر ایمان : میں ایک ایسے اﷲ واحد کے وجود پر یقین رکھتا تھا جو تمام کائنات کا مالک ہے اور اس کی محبت اور طاقت کا اظہار دیدہ اور نا دیدہ مخلوقات کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایک سے زائد معبودوں کا تصور کبھی میری سمجھ میں نہ آ سکا کیونکہ میرے خیال میں اس سے اللہ واحد کی عظمت اور قوت ناقص ہو جاتی ہے۔ ٭ براہ ِراست دُعا پر ایمان : میں اﷲ تعالیٰ سے رابطے اور اُس سے کچھ مانگنے کے لیے کسی سفارش اور ثالثی کو غیر ضروری سمجھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ التجا(دعا) کسی توبہ کرنے والے دل سے آرہی ہے یا نہیں ۔ وہ حاجت کے مطابق کسی درمیانی وسیلے کے بغیربراہِ راست جواب دیتا ہے۔ اپنی نجات کے لیے کوشش مجھے خود ہی کرنی ہے۔ یوم حساب کو اپنی اچھی یا بُری زندگی کے لیے جواب دہ میں خود ہی ہوں گا۔ ٭اخروی زندگی پر ایمان : میں اکثر اپنے آپ سے یہ سوال کرتا کہ اگر ہمیں مرنے کے بعد پھر زندہ نہیں ہونا تو ہم آج کیوں اور کس مقصد کے لیے زندہ ہیں ؟ میں اس سوال کے جواب میں اس نتیجے پر پہنچا کہ موت جسمانی زندگی کا تسلسل ٹوٹنے اورروحانی زندگی کے آغازکانام