کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 205
ذہن الگ الگ کر کے دیکھ سکتا ہے۔ اس طرح لمحہ بھر کی قوتِ ارادی کی اچانک بالا دستی ہی سے ہم اللہ عزوجل کو اور جو کچھ وہ ہم سے چاہتا ہے اُسے اعلیٰ ترین مذہبی اور روحانی ماہرین کے تمام تر دلائل کی نسبت بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک ایسے ہی مرحلے میں مجھے اپنی زندگی میں کمی کا ادراک ہوا، اور یہ روحانی غذا کی کمی تھی۔ میری روح روحانی غذا کے لیے بے تاب تھی۔ میرے خیال کے مطابق روح ہمیشہ اپنی طبعی حدود کو توڑ کر منتہائے کمال تک پہنچنے کی جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ زندگی بھر جسم اور روح کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے تا وقتیکہ روح کو برتری حاصل ہو جائے۔ اور پھر درجۂ کمال کو پہنچ کر، اندرونی خرابی کے امکانات سے آزاد ہو کر، مادی آلائشوں سے پاک ہو کر اور زمین پر اپنا قرض بے باق کرکے فناکی حدود عبور کرتے ہوئے یہ اپنے اللہ تعالیٰ کے پاس واپس چلی جاتی ہے۔ پس میں رفتہ رفتہ یہ حقیقت سمجھ گیا کہ میرے روحانی وجود کو ایک نئی تشکیل و ترتیب کی ضرورت ہے ۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا ’’یہ تشکیل و ترتیب ِ نو کیوں ضروری ہے؟ اس کا آغاز کیسے ہو گا؟ میرے مذہب (عیسائیت) نے میری روح کو مطلوبہ تشکیل و ترتیب کیوں نہیں دی؟ ‘‘ مجھے محسوس ہوا کہ شک کے عنصر نے میرے ایمان کودبا رکھا ہے۔ اس مذہب کے کچھ سخت نظریات اور رسوم میری عقل کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ کیا ایمان داری سے میں ان عقائد اور رسوم کو قبول کر سکتا ہوں ؟ کیا میں عیسائیت کے ان عقائد کو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر) نازل کردہ سمجھوں ؟ بعض عقائد تو میری فطری عقلِ سلیم کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہ تھے۔ میں اس حقیقت کو بدلنے کے لیے انھیں کوئی اور معنی نہ پہنا سکا کہ جب تک میں کسی شرط یا اعتراض کے بغیر اُن عقائد کو قبول نہیں کرتا (عیسائیت کے رائج الوقت نظریہ کی رُو سے) اس وقت تک میں کافر اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود و معتوب رہوں گا۔ یہاں میں یہ ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قبول اسلام سے قبل میں عیسائیت کے کیتھولک چرچ(فرقے) سے وابستہ تھاا ور اس کی تعلیم یہ تھی کہ اس چرچ کے اصول اور فیصلے ہر خطا سے