کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 203
باتیں سنیں جو کچھ عرصہ ان کے بقول ’’خون کے پیاسے‘‘ مسلمانوں کے ساتھ رہ کر آئے تھے تو میں ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوا۔ چند سال بعد جب خوش قسمتی سے مجھے ایک مسلمان مبلغ کا خطاب سننے کا اتفاق ہوا تو اسے عیسائیوں کے ایک ایسے مجمع کے سامنے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے دیکھا جس میں بیشتر افراد اپنا مسیحی اجتماع چھوڑ کر اور اپنے عقیدہ کے مطابق، اسے کافر سمجھ کر اس کا مذاق اڑانے آئے تھے۔ اُس کی باتوں اور اُس کے طرزِعمل نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ عیسائیت پر میرا پختہ یقین چکنا چور ہو گیا۔ کئی دفعہ میں نے کسی عیسائی مبلغ سے کوئی سوال پوچھا تو یہ جواب ملا: ’’ میں تمھارے سوال کا جواب نہیں دے سکتا مگر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم کسی دلیل کے بغیر میری بات مان لو۔‘‘ اسلام عیسائیت سے کتنا مختلف ہے جس میں کوئی سوال جواب سے ماورا ہے نہ بالا تر۔ نامور جرمن شاعر گوئٹے (Goethe) نے قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے بعد بے اختیار کہا:’’ اگر یہی اسلام ہے تو ہم میں سے ہر صاحب ِفکرانسان در حقیقت مسلمان ہے۔‘‘ عیسائیت کے مختلف چرچ (فرقے) آج کے دور کے مسائل سے قطعاً نہیں نمٹ سکتے۔ ان مسائل کا حل صرف اسلام ہی پیش کرتا ہے مگر مغربی دنیا کے دل و دماغ میں اسلام سے بغض اب بہت گہرا ہوچکا ہے۔کبھی کبھی غیر متوقع ذرائع سے کوئی حوصلہ افزا خبر سُورج کی کرن بن کر آ جاتی ہے، جیسے چند سال قبل جنرل سمٹس (General Smuts) کا یہ بیان کہ افریقہ میں جہاں عیسائیت کے تما م چر چ مل کر ایک آدمی کو دائرئہ عیسائیت میں داخل کرتے ہیں وہاں دس لوگ داخل اسلام ہوتے ہیں ۔[1] عیسائیت کی ایک ضرب المثل ’’سچائی بالآخر غالب آکر رہے گی‘‘ اس حوالے سے سچی ثابت ہو رہی ہے۔[2] [جان فشر] (John Fisher)
[1] ۔ جان کرسچن سمٹس (1870ء تا1950ء) جنوبی افریقہ کا ایک جرنیل اور سیاستدان تھا جو دو بار وزیراعظم (1919-24اور پھر 1939-48ء میں ) رہا۔ اس نے 1945ء میں اقوام متحدہ کے منشور کا ابتدائیہ لکھا۔(م ف) [2] ۔ اسلامک ریویو، مارچ 1934ء ج:22،ش:3،ص:181،اور جون1934ء ج:22،ش:6،ص:63-61