کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 197
احمدیوں کی ایک اور خصوصیت جو انھیں مسلمانوں سے الگ کرتی ہے، یہ ہے کہ وہ بڑی مکاری سے مسلمانوں کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اُنھیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ مسلمان انھیں قبول نہیں کرتے، لہٰذا وہ اپنے پڑھے لکھے لوگوں کو اہم سرکاری عہدوں پر متعین کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن کے ذریعے سے اسلام کے نام پر احمدیت کو فروغ دیتے ہیں ۔ میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ احمدی اپنا موقف دنیا پر واضح کر دیں اور یہ صاف صاف بتادیں کہ وہ مسلمان ہیں یا مسلمانوں سے علیحدہ ایک نیا گروپ۔ اگر وہ مسلمان ہیں تو اجماعِ اُ مت ِ مسلمہ کی پیروی کرتے ہوئے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ’’امتی نبی‘‘ کا تصور ترک کر دیں اور مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرکے اسلام کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں ۔اس کام کے لیے ان کے تعاون کی بہت ضرورت ہے اور یہ کام وہ مسلمانوں کو اپنے کافرانہ عقائد اور اعمال کی بنا پر متنفر کرکے نہیں بلکہ اُن کے عقائد و اعمال اختیار کر کے ہی سرانجام دے سکتے ہیں ۔ اگر احمدی ایک الگ جماعت اور نئی تنظیم ہیں تو اُنھیں عام مسلمانوں سے الگ ہو کر اپنی شناخت کروانی چاہیے تاکہ جو لوگ احمدیت قبول کریں اُنھیں شروع ہی سے یہ علم ہو کہ وہ ایک نئے مذہب میں داخل ہو رہے ہیں اور وہ خود کو مسلمان سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ غلام احمد کو صرف مجدّد سمجھ کر جماعت کا نام احمدیہ رکھنا بھی قابل قبول نہیں کیونکہ غلام احمد اسلام کا مجدّد نہیں تھا۔ اس سے پہلے اسلام میں کئی مصلح مختلف اوقات میں آئے اور اُن میں سے ہر ایک نے اسلام کی مجموعی ترقی کی خاطر کچھ مخصوص فرائض سر انجام دیے لیکن کسی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اسلام میں یہ شرط نہیں ہے کہ مصلح کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی مخصوص نام سے ایک الگ جماعت بنائے اور غلام احمد سے پہلے کسی مجددِ اسلام نے ایسا نہیں کیا۔ اب تک اسلام میں قابلِ قدر مصلحین میں سے ایک مصلح امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، مگر انھوں نے کوئی ایسی جماعت نہیں بنائی۔ مجھے علم ہے کہ نائیجیریا کے احمدی اور کچھ دوسرے احمدی، مثلاً لاہوری احمدی غلام احمد کو امتی