کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 195
انبیاء( علیہ السلام ) کا ساتھ نصیب فرمائے گا، اور پھر اس آیت میں مذکور دیگر نیک بخت لوگوں یعنی صدیقین، پھر شہداء اور اس کے بعد عام نیکو کار مومنین کی صحبت عطا کرے گا جن کا ظاہر وباطن ایک ہے، اورپھر اﷲ تعالیٰ فرمانبردار لوگوں کی یوں تعریف فرماتا ہے کہ وہ رفاقت کے اعتبار سے بہترین لوگ ہیں ۔‘‘[1] صحیح مسلم ، مسند احمداور کئی دوسری کتب حدیث میں اس آیت کا شانِ نزول بیان کیا گیا ہےاور امام طبری نے بایں طور ذکر کیا ہے:) ’’ایک دن انصار ِ مدینہ میں سے ایک شخص حزن و ملال کی حالت میں نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے اس کی اداسی کا سبب پوچھا تو اُ س نے کہا:’’ اے اﷲ کے رسول! مجھے ایک خیال ستا رہا ہے۔‘‘ آپ نے پوچھا: ’’وہ خیال کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا:’’ ہم دن رات آپ کی زیارت اورصحبت سے مستفید ہوتے ہیں مگر کل (با روز قیامت) آپ انبیاء(علیہ السلام) کے ساتھ ہوں گے، پھر تو ہماری آپ تک رسائی ناممکن ہو جائے گی۔‘‘آپ نے اس شخص کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا، پھر جبرائیل علیہ السلام یہ آیت {ومن یطع اللّٰہ…الایۃ} (النساء:4؍69) لے کر آئے۔ تب آپ نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور خوشخبری سنائی۔‘‘[2] اور اس سے ملتی جلتی روایت مجمع الزوائد میں بھی ہی جس میں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جو لوگ اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے آخرت میں وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔[3] یہ صاف اور واضح تشریحات اور پس منظر پڑھ کر اس آیت کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے اورکسی وضاحت کی مزید ضرورت باقی نہیں رہتی۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ احمدی قرآن کے مفہوم و مطالب کو صحیح طور پر سمجھ کر اپنے مبلغین کے ایجاد کیے ہوئے دینی فلسفے کو رَد کر دیں جس
[1] ۔ تفسیر ابن کثیر : 694/1 [2] ۔تفسیرالطبری : 4؍225، 8؍ 534 [3] ۔ مجمع الزوائد :63/7