کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 194
((وَمَن يُطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا)) ’’جو لوگ اﷲ اور (اُ س کے) رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن کو اﷲنے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔یہ بلحاظ رفاقت بہترین لوگ ہیں ۔‘‘[1] اس آیت کے مفہوم میں غلط بیانی کرکے قادیانی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے کوئی انسان درجۂ نبوت تک پہنچ سکتا ہے،وہ کہتے ہیں : ’’ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انبیاء علیہ السلام آئیں گے ان کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت یعنی احکامِ قرآن و حدیث کی اطاعت لازم ہے کیونکہ انھیں روحانیت کا یہ مقام آپ کی اطاعت ہی کے سبب ملے گا، اس کے بغیر نہیں ۔ اس کا مطلب بالآخر یہی بنتا ہے کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ضابطۂ حیات یعنی قرآن لے کر آنے والے آخری نبی ہیں ۔ آپ کے قوانین کوئی منسوخ کر سکے گا نہ اس کی جگہ کوئی اور قانون نافذ کرسکے گا۔‘‘ اس غلط بیانی کا مقصد صرف یہ ہے کہ غلام احمد کو تمام امتِ مسلمہ بلکہ خود نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدے کے بر عکس نبی ثابت کر کے دکھا دیا جائے۔ کتنی تعجب والی بات ہے کہ علامہ راغب کی کتاب ’’ مفردات القرآن‘‘ جیسی مستند لغت قرآن اور معروف و مقبول تفاسیر اور کتب حدیث کونظرانداز کر کے اس آیت کا ایک خود ساختہ مفہوم نکال لیا گیا۔ قاد یانی ان مستند کتب میں معتبر علماء کے قلم سے کی گئی اس آیت کی تشریح سے لا علمی کا بہانہ ہرگز نہیں کر سکتے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’جو کوئی اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر پر عمل کرے اور نواہی سے گریز کرے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اسے اپنی عظیم الشان جنت میں داخل فر مائے گااور اسے
[1] ۔ النساء : 69/4