کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 191
بھی نبی کو اپنے شہر یا ملک میں فوری طور پر سچا نہیں سمجھا جاتا۔ ہمیں یہ دلیل بھی قابلِ قبو ل لگتی، لہٰذا ہم مکمل اعتماد کے ساتھ اُن مبلغین کی پیروی کیا کرتے تھے۔اسی اعتماد کے ساتھ میں نے اکتوبر 1972ء میں احمدیہ یوتھ کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ بعد میں کچھ واقعات نے مجھے احمدیت کے مسلمہ دعاوی پر نظر ثانی اور اُن کے حوالہ جات کی تحقیق پر مجبور کر دیا۔ میرا مقصد دراصل یہ تھا کہ احمدیت کی روز افزوں مخالفت کے پیش نظر میں خود کو مضبوط دلائل سے آراستہ کرلوں ۔ ایک یونیورسٹی سکالر کی حیثیت سے میں جانتا تھا کہ احمدیت کی حمایت میں میرا اعلان اسلامی مصادر کے مصدّقہ حوالوں سے مزین ہونا چاہیے۔ تاہم احمدی مبلغین کے کتابی حوالوں کی حد تک میری تحقیق کے نتائج مایوس کن نکلے اور مکمل غوروخوض اور تحقیق کے بعد میں اﷲ تعالیٰ اور تمام انسانوں کو گواہ بنا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ احمدیت کے مبلغین اپنے اکثر پیرو کاروں کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ کئی صورتوں میں وہ ایسے مصنفین کے حوالے پیش کرتے ہیں جو احمدیت کے سخت مخالف ہیں مگر وہ یہ حوالے اس چالاکی سے پیش کرتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے جیسے وہ مصنفین احمدیت کے حامی ہیں ۔ حوالہ جات کی اصل کتب کے مطالعے ہی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس تناظر میں احمدی مبلغین نے یہ حوالے پیش کیے ہیں ، ان کتب کے مصنفین کا نظریہ تو اس کے بالکل بر عکس ہے۔ اس تحقیق ہی سے حق کے متلاشی کو یہ پتہ چل سکتا ہے کہ پاکستانی احمدی دنیا کو کس طرح دھوکا دے رہے ہیں ۔مثال کے طور پر مرزا غلام احمد کے دعوائے نبوت کے حق میں وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث اکثر دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں : ’’ کہہ دیجیے کہ آپ خاتم النبیین ہیں مگر یہ نہ کہیے کہ آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں ۔‘‘ یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی زوجہ مطہرہ سے منسوب یہ حدیث بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ، ترمذی اور نسائی میں سے کسی بھی کتاب میں موجود نہیں اور نہ مؤطا امام مالک اور مسند احمد میں کہیں اس کا ذکر ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح بھی اس حدیث سے