کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 182
نیکی کا پیغام بر بنا کر بھیجا تھا، اپنے حجرے میں اپنی محبت شعار زوجہ کے زانوپر سر رکھے لیٹے ہوئے تھے۔ مدینہ کے اہلِ ایمان مرد، عورتیں اور بچے اﷲ کے، آخری رسولِ امین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی چٹائی کے گرد عیادت کے لیے جمع تھے۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اسلام کے انتہائی دلیر اور پختہ کار مجاہدوں کے رخسار بھی آنسوؤں سے تر تھے۔ اُن کے قائد، دوست، محبوب، معلم اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنھوں نے اُن لوگوں کو وہم و جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر حق کی روشن راہ دکھائی تھی، انھیں امن و سلامتی والے دین اسلام سے روشناس کرایا تھا،اب اُن سے جدا ہو رہے تھے، اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ اُن کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے رواں تھے اور ان کے دل بوجھل اور اداس تھے۔ پریشانی بلکہ مایوسی کے عالم میں ایک صحابی نے بے ساختہ کہا: ’’ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ بیمار ہیں ۔ اگر آپ انتقال فرما گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟ ‘‘ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھارے پاس قرآن حکیم جو ہے۔‘‘ ’’جی ہاں ، مگر اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس کتابِ ہدایت کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں کبھی کبھی آپ سے مشورہ، نصیحت یا ہدایات لینا پڑتی تھیں ۔ اگر آپ ہم سے دو ر ہو گئے توہماری رہنمائی کون کرے گا؟‘‘ جواب ارشاد ہوا: ’’میرے قول و فعل کو رہنما سمجھ کر اُسی کے مطابق عمل کرنا۔‘‘ ’’مگر اے اﷲ کے رسول! آپ کے جانے کے بعد کوئی ایسی نئی صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے جیسی پہلے کبھی پیدا نہ ہوئی ہو تو اس وقت ہم کیا کریں ؟ اور ہمارے بعد آنے والے لوگ (آپ کی رہنمائی کی عدم موجودگی میں ) کیا کریں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستگی سے اپنا دستِ مبارک اور سر اُٹھایا، آپ کے رُخِ انور سے پیغمبرانہ شان جھلک رہی تھی اور آنکھوں میں ذہانت ِ نبوی کی چمک دکھائی دے رہی تھی۔ آپ نے بآواز بلند فرمایا: ’’ اﷲ نے ہر انسان کو رہنمائی کے لیے عقل اور ضمیر عطا کیا ہے ۔ سو تم لوگ عقل اور ضمیر کو ہر معاملہ میں استعمال کر وگے تو اﷲ کی رحمت تمھاری رہنمائی کرے