کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 181
(اللہ تعالیٰ) اُس کو اس کی عقل کے بقدر ہی صلہ دے گا ۔‘‘[1]
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب تمثیلی اخلاقی کہانیوں کا مجموعہ بھی اسلام کے مطابق ہے اور یہ قول بھی کہ’’ ہر بات کا ثبوت تلاش کر لیا کرو اور پھر ان میں سے اچھی باتوں کو اپنا لو۔‘‘
جو لوگ اندھا دھند تقلید کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل کا استعمال کرکے عمل نہیں کرتے، انھیں قرآن حکیم کی سورۃ الجمعہ (آیت:5) میں کتابوں سے لدے ہوئے گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
خلیفۂ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اسلام سچائی کا دوسرا نام ہے اور سچائی تک رسائی اسلام کے شان دار اور ہمیشہ فروزاں رہنے والے سورج کی روشنی اور علم کی مددہی سے ممکن ہے لیکن علم حاصل کرکے سچائی تک پہنچنے کے لیے عقل کا استعمال ضروری ہے۔‘‘[2]
اس موقع پر سب سے زیادہ معنی خیز بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے ارشاد فرمائی جب عظیم الشان سلسلۂ انبیاء علیہم السلام کے آخری رسول جن کو اﷲ نے اپنے رحم و کرم سے سچائی اور
[1] مسنداحمد: 417/1 حدیث:3960)
لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ عقل کا اطلاق علم کے مطابق عمل کرنے پر ہوتا ہے۔ (بغیۃ المرتاد: 251-243/1)
مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ عقل کے متعلق تمام احادیث عقل پرست اور جھوٹے لوگوں نے وضع کی ہیں ۔ (پروفیسرعبدالرحمن)
۔ المعجم الأوسط:215/2 و مجمع الزوائد:61/8۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں منصور بن صقیر نامی راوی ہے جس کے متعلق ابن معین نے ’’لیس بالقوی‘‘ کہا ہے نیز اس کی سند سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ نامی راوی ساقط ہے جو کہ متروک راوی ہے۔لہٰذا یہ روایت شدید ضعیف ہے اور معجم الأوسط کے محقق نے بھی اسے ضعیف الاسناد کہا ہے۔ نیز اس روایت کو امام سیوطی نے موضوع احادیث کے متعلق اپنی کتاب ’’اللآلیٔ المصنوعۃ‘‘(115/1)میں اورامام ابن جوزی نے’’ کتاب الموضوعات‘‘( 119/1) میں بیان کیا ہے۔ (عبدالرحمن)
[2] ۔ حضرت علی رضی للہ عنہ کا یہ قول مجھے نہیں مل سکا لیکن ائمہء کرام کی آراء کی ر وشنی میں یہ بحث گزر چکی ہے کہ عقل کے متعلق تمام احادیث و آثار ضعیف یا موضوع ہیں ۔ (عبدالرحمن)