کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 180
((إِنَّ الرَّجُلَ لَيَكُونُ مِنْ أَهْلِ الصَّلاةِ وَالصَّوْمِ وَالزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ حَتَّى ذَكَرَ سِهَامَ الْخَيْرِ كُلَّهَا ، وَمَا يُجْزَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلا بِقَدْرِ عَقْلِهِ))[1] ’’بے شک انسان نماز، روزہ ،حج ، زکوٰۃ وغیرہ سب فرائض ادا کرتا رہے مگر روز قیامت
[1] یں : [ھذا اتفاق أہل المعرفۃ علی بطلان ھذا الحدیث] ’’یہ عقل کے متعلق حدیث کے بطلان پر علل حدیث کے ماہرین کا اتفاق ہے۔‘‘ (بغیۃ المرتاد: 251,243,181,171/1)امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : [أحادیث العقل کلھا کذب] ’’عقل کے متعلق تمام تر احادیث جھوٹی اورموضوع ہیں ۔‘‘ (المنار المنیف،ص:66)امام ابن جوزی عقل کے متعلق بعض احادیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’عقل کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی حدیث ثابت نہیں ہے۔اوران کو روایت کرنے والے تمام راوی متروک ہیں ۔ وہ احادیث گھڑتے تھے اور پھر ایک دوسرے سے چوری کرکے ان کی سند یں تبدیل کردیا کرتے تھے، لہٰذا ان سب کو یہاں بیان کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔‘‘ (کتاب الموضوعات: 123/1) مذکورہ بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ عقل کی بابت تمام احادیث باطل ہیں ۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ عقل کے متعلق بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : لفظ’’ عقل‘‘ایک ایسا اسم ہے جس کا قرآن پاک میں کوئی وجود نہیں ہے۔ قرآن میں اس کے دیگرمشتقات مثلاً : تعقلون ،یعقلون، وغیرہ کا تذکرہ تو ملتا ہے لیکن اسم عقل کا استعمال قرآن میں نہیں ہے بلکہ قرآن میں عقل کے لیے حجر ،نُھٰی، ألباب وغیرہ جیسے اسماء استعمال ہوئے ہیں ۔ اسی طرح صحیح حدیث میں بھی صرف ایک جگہ (صحیح البخاری: حدیث:304) عقل بطور اسم استعمال ہوا ہے اور وہاں بھی بطور نقص استعمال ہوا ہے۔ دراصل عقل مصدر ہے جس کا معنی یاد رکھنا اورجس چیز کو آدمی جانتا ہو اسے (ضائع ہونے سے)روک کررکھنا ہے۔ اسی سے لفظ عقال (وہ رسی جس سے اونٹ کا گھٹنا باندھا جاتا ہے) مشتق ہے کیونکہ وہ اونٹ کو ادھر ادھر جانے سے روکتی ہے اورایک جگہ باندھے رکھتی ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضبط علم کو عقال سے تشبیہ دی ہے، فرمایا: [اِستَذْکُرُواالقُرآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ، لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنْ صُدُوْرِ الّرِجَالِ، مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِہَا] ’’قرآن کو باربار پڑھا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اونٹ کے اپنے رسی سے نکل کر بھاگ جانے سے بڑھ کر قرآن لوگوں کے سینوں سے نکلنے والا ہے۔‘‘