کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 18
’’ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمھیں بے مقصد پیدا کر دیا اور تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤگے؟ ‘‘
اور ایک جگہ پر فرمایا:
((وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ)) (ص:38/27)
’’اور ہم نے آسمانوں ، زمین اور اُن کے درمیان جو کچھ موجود ہے وہ سب بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ یہ کفّار کا خیال ہے، تو کافروں کے لیے آگ کی ہلاکت اور تباہی ہے۔‘‘
انسان تمام مخلوقات کا ایک حصہ ہے اور ایک ایسی مخلوق ہے جس کے اندر سب سے اعلیٰ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کی جبلّی طلب اور اپنے خالق کی تلاش کا فطری جذبہ ہے۔ اسلام میں اسی کو فطرت کہا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((كلُّ مولودٍ يولَدُ على الفطرةِ فأبواه يُهوِّدانِه أو يُنصِّرانِه أو يُمجِّسانِه))
’’ہر بچہ فطرت ( اسلام) پر پیدا ہوتا ہے مگر اُس کے والدین اُسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔‘‘[1]
انسان جانتا ہے کہ زمین پوری کائنات کا محض ایک چھوٹا سا ذرّہ ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ اس چھوٹی سی زمین میں لاتعداد مخلوق پیدا ہوتی رہتی ہے۔ انسان اس تعاملِ کائنات کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ اُ سے یقین نہیں آتا کہ اُ س کے ارد گرد کی کائنات اور اُ س میں جو کچھ ہورہاہے وہ محض اتفاق سے وجود میں آگیاہے۔ اُ سے یہ احساس ہوتاہے کہ کائنات مختلف اقسام کی بے ربط چیزوں کا ایک بے معنی مجموعہ نہیں ہے ۔ منطق اسے یہ بتاتی ہے کہ سب کچھ کسی خالق ، مدبّر، منتظم، حاکم اور مالک کے بغیر نہیں ہو سکتا، لیکن اس وسیع و عریض ، عظیم الشان اور
[1] ۔صحيح البخاري ،الجنائز،باب ما قيل في اولاد المشركين،حديث :1385۔