کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 175
کہ گرجے میں حاضری معاشرے کے لیے ضروری ہے مگر اب جبکہ سوچ کا انداز بدل گیا ہے تو ہم اتوار کو گرجے میں جمع ہونے والے بے مقصد عبادت گزاروں کے ہجوم کا کھوکھلا پن صاف دیکھ سکتے ہیں ۔ غالب گمان یہی ہے کہ اب جو لوگ چرچ جاتے ہیں اُن میں خاصی تعداد کی گرجے میں حاضری اپنی جوانی کے دور کی عادت کے باعث ہوتی ہے نہ کہ کسی اخلاقی فائدے کی غرض سے۔ پھر بھی انسانیت کو بہر حال کسی نہ کسی صورت میں مذہب کی ضرورت تو ہے۔ آج کے دور میں ہر وقت تفریحِ طبع کا جو جنون دیکھنے میں آرہا ہے اس کا کوئی نہ کوئی ردّعمل تو یقینا ہو گا۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ کوئی بھی صاحب ِ شعور انسان کسی ایسے مذہب کو قبول نہیں کرسکتا جو یہ کہے کہ ’’جب تک آپ بعض انتہائی مشکوک حقائق پرایمان نہ لے آئیں اور اپنے اﷲ کے بارے میں ایک ناممکن سا تصور نہ اپنا لیں آپ کی نجات نہیں ہوسکتی۔‘‘ ایسے مذہب کی مشکوک باتوں کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے جاتے اور الٹا ناممکنات پر اندھا دھند ایمان لانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جبکہ ذی شعور لوگوں کو کسی ایسی بات پر رضامند کرنا نا معقولیت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسٹربرنارڈشا (Bernard Shaw) کی اسلام کے غلبہ کی پیش گوئی[1] سچی ثابت ہونے والی ہے مگر ہم مسلمانوں کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے ۔ دنیا ’’اسلام‘‘ جیسے دین کی طرف ہی راغب ہو سکتی ہے لیکن یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کا رُخ خالص اور سادہ اسلام کی طرف موڑ دیں ۔ جلد ہی حق کے متلاشی اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ تاریخ میں اس کی مثال ہی نہیں ملے گی۔وہ پرانے مقبول عام نعروں سے مطمئن نہیں ہوں گے بلکہ ایک ایسے دین کا تقاضا کریں گے جو ان کے تمام سوالات کے جوابات دے اور اُن سے بچوں جیسا سلوک نہ کرے کہ وہ اپنی فرمائشیں شفیق باپ سے براہِ راست کرنے کی بجائے آیا کو وسیلہ بنائیں ۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ آئیے ہم مسلمان اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو جائیں ۔
[1] ۔ جارج برنارڈشا (1856ء تا 1950ئ) شہرہ آفاق انگریزی ڈراما نگار تھا۔ اس نے پیشگوئی کی تھی کہ اگلی صدی اسلام کی ہوگی۔ (م ف)