کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 174
لیتا وہ ازخود دینی عالم ہونے کا دعویٰ کر دیتا، یعنی اسے پڑھا لکھا سمجھا جاتااور کلیسا کے لیے جدوجہد (دینی نہیں بلکہ سیاسی اور مالی فوائد کے حصول کی جد وجہد) میں سرگرم علماء کی فہرست میں اس کا نام درج ہو جاتا۔ یہ جد وجہد دماغ اور جسم کی کشمکش تھی یا دوسرے لفظوں میں ایک طرف علم کی طاقت اور دوسری طرف جسمانی طاقت کے درمیان تصادم کی صورتِ حال تھی۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا مقابلہ ان پڑھ سپاہیوں سے ہوتا تھا، ایک طرف عاقل اور فاضل تھے اور دوسری طرف نادان مسلح افراد، جس کا صرف ایک ہی نتیجہ ممکن تھاکہ چرچ (کلیسا) دولت میں کھیلتا رہا، لہٰذا جان (John) اورالیگزینڈر بورجیا (Alexander Borgia) جیسے لوگوں کو بھی پوپ کے منصب پر فائز ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ یہ بات بہرحال تسلیم کرنی پڑے گی کہ طبقۂ علماء میں اچھے اور نیک لوگ بس گنتی کے تھے جو خلوصِ نیت سے اپنے پیروکاروں کو جنت کی راہ دکھانے کی کوشش کرتے، مگر اُن کی راہ میں بھی یہ ناقابل عبور رُکاوٹ حائل رہی کہ اُن کے خطبات کا متن لاطینی زبان میں ہوتا تھا جس کا کوئی مربوط جملہ ہزاروں کے اجتماع میں سے ایک فرد بھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ اگر کوئی آدمی اپنی سوچ سے کام لے کر، دی جانے والی دینی تعلیم کی صداقت کو چیلنج کرتا تو اسے موت کی نیند سلا دیا جاتا۔ چرچ کی صداقت کے متعلق سوال کرنے کی جرات ’’انحراف‘‘ شمار ہوتی تھی جس میں کلیسا کی طرف سے زندہ آگ میں جلا دینے کا حکم صادر ہوتا تھا۔ عیسائی دنیا میں اب بھی یہی صورت حال جاری ہے۔ رومن چرچ اپنی تعلیمات کی ’’بے عیبی‘‘ کے متعلق کسی کو سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اگرچہ اب سزاؤں کی صورت حال بہت مختلف ہے۔ جب تعلیم پر چرچ کی اجارہ داری جاتی رہی اور مشینی طباعت کے باعث کتابیں عام لوگوں کی دسترس میں آ گئیں تو پھر یہ ہوا کہ لوگ اپنی سوچ سے کام لینے لگے اورصدیوں بعد ہی سہی، لوگ بالآخر اُن پرانے قصے کہانیوں کی صداقت کو چیلنج کرنے لگے جن کو اتنا عرصہ چرچ سے باہر کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا۔ سالہا سال بلکہ یوں کہیے کہ انیسویں صدی کے آخر تک فیشن کی خود سر دیوی کا یہ حکم چلتا رہا