کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 172
خاص طور پر میری والدہ کو ’’ دی اینگلو انڈین ویکس ٹائمز ‘‘ (The Anglo-Indian Week's Times)میں اُن کی کہانی ’’اے رومانس آف لینگولن‘‘ (A Romance of Leangollen) چھپنے پر انعام ملا تو میرا یہ شوق کچھ اور بڑھ گیا۔سکول میں ، میں اپنی ادبی صلاحیت کو بروئے کا ر لایا اور سکول کے درجہ پنجم کے میگزین کا ایڈیٹر مقرر ہوا۔ سکول چھوڑنے سے پہلے ہی میری تحریریں اخبارات میں شائع ہونے لگیں ۔ مسٹر حمید اللہ جو اُس وقت وکیل تھے، میرے ادبی ارتقا میں دلچسپی لینے لگے۔ میں نے اُن کا نام اپنا قلمی نام بنا لیا۔ افسوس کہ اب جبکہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے، میں اپنا پُر خلوص اظہار ِ تشکر اُن کے بجائے اُن کے خاندان کو منتقل کر رہا ہوں ۔ ان کے نامور فرزند محمود اللہ ہوم سیکرٹری صوبہ جات متحدہ (ہندوستان) سے میری خط و کتابت کا سلسلہ باقاعدہ جاری ہے۔ مسٹر محمود اللہ اپنے قدیم دہلوی آباؤ اجداد کی بلند پایہ روایات کو نہایت خوبی سے نبھا رہے ہیں ۔ جب میں سکول میں پڑھتا تھا تو لیورپول (Liverpool) میں ایک مسجد تھی جہاں میں اپنی والدہ کے ہمراہ کئی اجتماعات میں شامل ہوا۔ مجھے (اسلام سے) اتنی دلچسپی ہو گئی کہ میں گھر کے بنے ہوئے جبے (گاؤن) میں ملبوس ہو کر ایک صندوق پر چڑھ کر مقامی شیخ کے انداز میں اپنے ہمسایوں کے اجتماع کو اسلام کی حقانیت کی تعلیم دینے لگا۔لیور پول (Liverpool) کی مسجد رفتہ رفتہ بند ہو گئی اور کچھ عرصہ تک میرا اس دین سے رابطہ منقطع رہا۔ میں سٹیج کے لیے ڈرامے لکھنے اور تھیٹر میں پیش کرنے لگا۔ لندن کے ممتاز ناشرین سے میں نے اپنی کہانیاں اور سلسلہ وار ناول اور ڈرامے شائع کرائے۔ فلموں کی کہانیاں لکھیں ،کچھ فلموں میں اداکاری بھی کی اور بعض فلموں کے گیت بھی لکھے۔ میں ہمیشہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے اذیت میں مبتلا جانوروں کا ہمدرد رہا۔ آپ کی رحم دلی انتہائی نچلے درجے کی مخلوق تک پھیلی ہوئی تھی۔ اب میں جانوروں کی خدمت کی انجمن (Animal Service Association) کا صدر ہوں جو میں نے باربردار جانوروں کے تحفظ کے لیے قائم کی ہے۔ میرا تازہ ترین گیت ’’جنگ اور خواتین‘‘ (Women and War) امن کی اپیل ہے۔ کچھ عرصہ سے میں اپنے اخبار کی ادارت کر رہا