کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 165
ادراک ہوتا جائے گا۔اپنے مسلمان بھائیوں سے ملنے کی خوشی کی تو کوئی انتہاہی نہیں ۔ سفید، بھورے، سانولے یا سیاہ رنگ کے لوگ جنھیں ایک دوسرے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، سب کے سب قبلہ ہی کی طرف منہ کر کے عبادت کرتے ہیں ۔ اﷲ نے رنگوں کا کوئی امتیاز قائم نہیں فرمایا اور ہر آدمی کے پاس اپنے رنگ پر مطمئن ہونے کی کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہے۔ مجھے سانولے اور سیاہ رنگ کے لوگ بہت اچھے لگتے ہیں ۔ جلد کی رنگت کا دارومدار سورج کی حرارت کی مقدار پر ہے۔انسانی جلد جتنی زیادہ حرارت جذب کرے گی اس کا رنگ اتنا ہی سانولا یا سیاہ ہو گا اور جتنی کم حرارت جذب کرے گی اتنا ہی زرد یا سفید ہو گا۔ اس لیے قطب شمالی کی طرف جتنا آگے جائیں لوگوں کا رنگ اتنا ہی زرد یا سفید اور ان کے بالوں کا رنگ دیکھنے میں اتنا ہی پھیکا نظر آتا ہے۔ اس کے بر عکس خطِّ استوا کی طرف آئیں تو رنگ بتدریج سانولااور پھر سیاہ نظر آتا ہے۔برف موت کی علامت ہے اور سورج زندگی کی۔اس لیے میں برف والے علاقے اور مذہب کو چھوڑ کر سورج کی حرارت، دھوپ والے علاقے (عرب اور اسلامی ممالک)اور دین کی طرف جانا پسند کرتا ہوں ۔ آدمی کی اصل قیمتی چیز اُ س کی جلد کی رنگت نہیں بلکہ اس کے دل کی ہوتی ہے۔کیا سیپ(صدف) بھورے رنگ کی اور اُ س کے اندر کا قیمتی موتی سفید اور چمکدار نہیں ہوتا؟ پس میں روح کو موتی اور جسم کو صدف سمجھتا ہوں ۔ سانولے اور سیاہ لوگوں کی تصویریں بنانے میں ، میں نے بہت لطف محسوس کیا۔ اگر میری جلد کی رنگت سیاہ ہوتی تو مجھے خوشی ہوتی کیونکہ مرد کو یہی رنگت سجتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر مجھے ملکِ عرب میں جانے کا موقع ملا تو وہاں کی تیز دھوپ میں میرا رنگ بھی سانولا ہو جائے گا۔ سانولی رنگت پر سفید پگڑیاں ، یہ تصور ہی کتنا دلکش ہے۔ اور مجھے یہی امید ہے کہ جب میں دھوپ میں سانولا ہو جاؤں گا اور حاجی بن جاؤں گا تو میری شخصیت کا ایک نیا رُوپ سامنے آئے گا! اب میں اپنے خاص موضو ع کی طرف آتا ہوں ۔ میرا یہ یقین روز بہ روز پختہ ہوتا گیا کہ کوئی اور مذہب دین اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ دین حضرت جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیاہے لیکن اپنے تمام دوستوں اور ہم وطنوں کامذہب ترک