کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 164
ملبوس محافظوں اور قیمتی چغوں والے پادریوں میں گھرا ہوا پوپ جسے ہر شخص (سوائے میرے) جھک کر سلام کرتا ہے۔ اگر بتیوں اور لوبان کی خوشبو کے بادلوں میں گھرا پوپ واقعی بہت حسین لگتا ہے۔ اس کی تھیٹر کے اداکاروں جیسی آن بان اپنی جگہ مگر اس کی شخصیت میں روحانیت کا ذرا سا بھی اثر نظر نہیں آتا۔ کیتھولک فرقے کی تقریبات کے موقعوں پر پو پ لوگوں کے اظہارِ عقیدت کی خاطر اپنا ہاتھ اور کبھی اس سے بھی زیادہ ذلت آمیز چیز، اپنا پاؤں آگے بڑھا دیتا ہے جسے لوگ بوسہ دیتے ہیں ۔ کیا اس سے زیادہ تکبر کے کسی اور مظاہرے کا تصور بھی ممکن ہے؟ کیا اس قسم کی قدیم رومی شہنشاہوں کی نقالی سے خودکو دینی رہنما ظاہر کرنے والا غریب اور موٹے کپڑے کے کرتے میں ملبوس، ننگے پاؤں چلنے والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نمائندہ کہلا سکتا ہے؟ اتنے واضح تضاد سے ایک صاحبِ شعور انسان کیوں کر متاثر ہو سکتا ہے؟ فرض کریں کہ آپ روم میں سینٹ پیٹر (St.Peter) کے چرچ میں کسی دینی بزرگ کی یاد میں منعقدہ تقریب میں یا کسی اور محفل میں شامل ہوں تو آپ کو ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ چرچ کے اندر سفارتی نمائندوں یا دوسرے بڑے لوگوں کے لیے خصوصی گیلریاں بنی ہوتی ہیں جو اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں ۔دوسری طر ف مسلمانوں کی مسجدکتنی خوبصورت اور سادہ ہوتی ہے۔ اور مکّہ کا حج کتنا دلکش ہوتا ہو گا جہاں غریب اور امیر میں کوئی فرق نظر نہیں آتااوراﷲ کے سامنے وہ سب یکساں ہوتے ہیں ۔ اب میری ساری روحانی تمنّاؤں کا محور یہ ہے کہ میں حج کر سکوں ۔ میں اپنے شاعرانہ تخیل کی آنکھ سے کبھی کبھی خود کو عرب کے صحرا میں بالکل اکیلا کھڑا دیکھتا ہوں جہاں سمندر کی طرح میلوں دور تک صحرا پھیلا ہوا ہے اور میں اپنے رب کے حضور اکیلا کھڑا ہوں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اُس کے ہاتھ میں ریت کا ایک ذرّہ ہوں ۔ میں ستاروں کو گہری نظر سے دیکھتا ہوں اور اس پُر جلال وسعت میں کھو جاتا ہوں ۔ دنیا کی تمام پریشانیوں سے دور کائنات کی بے انتہا وسعتوں میں کھوکر لمحہ بہ لمحہ میرا یقین فزوں تر ہو جاتا ہے کہ سائنس جوں جوں زیادہ بڑے اور حیرت انگیز قوانینِ فطرت دریافت کرتی جائے گی، ہمیں اﷲ کی زبردست قوت کا زیادہ سے زیادہ