کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 162
اب کوئی نہیں جانتا مگر وہ کتاب (الف لیلہ) جو انھوں نے لکھی آج بھی اتنی تروتازہ لگتی ہے کہ جیسے کل ہی لکھی گئی ہو۔ اس کتاب نے دنیا بھر کے ادب میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اس میں گہرے فلسفے اور اُس دور کی دانش انسانی کے علاوہ ہوا میں پرواز ،سمندر کی تہ میں سفر، دُور سے چیزوں کو دیکھنے کے کمال اور بہت دور کی آوازیں سننے جیسے تخیّل کی ایسی قیاس آرائیاں بھی ہیں جو آج سائنس کی وجہ سے حقیقت بن چکی ہیں ، لہٰذا یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس قدیم دور میں ایسی حیرت انگیز باتیں لکھنے والوں کا تخیّل کتنا دور رس اور درست تھا۔ عرب کے عظیم مفکروں ، شاعروں ، فلسفیوں ، ماہرین فلکیات اور سیاست دانوں کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ، لہٰذا میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں ۔ اسلام کے لیے اپنے جوش و خروش کی وجہ سے میں نے تمام مذاہب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ قدیم ترین مذاہب سے لے کر آج تک کے مذاہب کا موازنہ کیا اور تنقیدی نگاہ سے اُن کا جائزہ لیا۔ آہستہ آہستہ مجھے یقین ہونے لگا کہ مسلمانوں کا طریقۂ عبادت ہی صحیح دین ہے اور قرآن پاک میں وہ سب کچھ موجود ہے جو روح کو اپنے ارتقا کے لیے چاہیے۔ میں نے قرآن کریم کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ بدقسمتی یہ تھی کہ اس کے ترجموں پر انحصار کرنا پڑا۔ مگر مجھے اچھی طرح یہ احساس تھا کہ یہ اپنی اصل زبان میں کتنا دلکش اور معانی سے کتنا لبریز ہو گا۔ میں کیتھولک ماحول میں پیدا ہوا مگر میرے تمام خاندان نے روم کو پوپ کی اجارہ داری سے نجات دلانے کی بھرپور جدوجہد کی۔ میرے والد کو ایک سال تک ایک گہری، تاریک اور کال کوٹھڑی میں قید رکھا گیا۔ میرے چچا کو بھی قید کر دیا گیا اور بعد میں میرے والد کو سزائے موت دے دی گئی۔ میرے والد اور چچا کا جرم یہ تھا کہ وہ گیری بالڈی[1] (Garibaldi) کے ساتھ سازباز کر کے اُس کے لیے شہر پناہ کے دروازے کھول دینے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ مگر یہ سازش
[1] ۔ جوزف گیری بالڈی (Joseph Garibaldi) (1807-82ء) ایک اطالوی جرنیل تھا جس نے انیسویں صدی کے وسط میں اٹلی کی ریاستوں کو متحد کرکے ایک مملکت بنانے میں اہم کردار اداکیا۔ (م ف )