کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 160
اور سلطان ابو عبداللہ محمد کا فرڈینینڈ (Ferdinand) کی طاقتور فوج سے شکست کھا کر فرار ہوتے ہوئے اپنے شہر (غرناطہ) کے چھن جانے پر رونا بزدلی نہیں تھا۔ وہ ایک دلیر آدمی تھا اور بزدل نہیں تھا جیسا کہ تھیو فائیل گاتھئیر (Theophile Gauthier) اور کئی دوسرے مؤرخین نے کہا ہے اور اس کی ماں کا یہ کہنا بھی غلط تھا: ’’ جس تخت کی تم اپنی تلوار سے حفاظت نہ کر سکے اب اس کے چھن جانے پر بچوں کی طرح رونے کا کیا فائدہ؟‘‘ ہاں اے لاچار بو عبدل ! تم سپاہی سے زیادہ ایک فنکار تھے، اس لیے تم نے لڑائی سے وقتی شہرت کے حصول کی خاطر فن کے ایک لافانی شا ہکار کو دشمن کے ہاتھوں تباہ کروانے کے بجائے اسے صحیح سالم چھوڑکر فرار ہونے کو ترجیح دی۔ تمھارے دشمن اس زبردست کشمکش کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو تمھاری روح کی سرزمین پر تمھارے فنکارانہ ضمیر اور ایک ڈرامائی جنگ کے زعم کے درمیان برپا ہوئی ہوگی۔ نہیں ، بو عبدل! وہ یہ بات کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ تم اتنے ہولناک منظر (الحمرا کی تباہی) کو دیکھنا کیسے گوارا کر سکتے تھے۔ تم اس خواب نما محل کی شاندار دیواروں کو،جس میں تم بادشاہ کی حیثیت سے رہتے تھے، ایک دوسری کے اوپر گر کر تمھارے فنکاروں کے آرائشی شہ پاروں کو چکنا چور کرتے دیکھنا کیوں کر گوارا کر سکتے تھے؟ نہیں !تم پر تنقید کرنے والے لوگ کچھ نہیں جانتے۔ بھائی سلطان بُو عبدل ! میں تصور کی آنکھ سے تمھیں اس محل میں مصلّٰی بچھائے نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں ۔ میں شرطیہ طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ محل اپنے حُسن میں پورے سپین سے زیادہ قدروقیمت کا حامل ہے۔تم نماز پڑھتے ہوئے اﷲ سے ہدایت کی دعا کر رہے ہو گے کہ اس فیصلہ کن اور نازک گھڑی میں کیا کرنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ تم نے فوراً اپنے دل سے یہ آواز آتے ہوئے سنی ہوگی: ’’یہ محل چھوڑ دو تاکہ بعد میں آنے والے اہلِ ایمان اسے دیکھ کر خوش ہوں ۔ طاقتور دشمن کے مقابلے میں فضول مزاحمت چھوڑ دو اور یہاں سے فرار ہو جاؤ۔‘‘ سو تم فرار ہو گئے اور صلیب کی رہنمائی میں وحشی لوگ تمھارے اس طلسماتی محل میں سیلاب کی طرح داخل ہوئے اور اُن عجیب و غریب آرائشی چیزوں کو دیکھ کر، جو وہا ں رکھی ہوئی تھیں ،