کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 155
فیصلے کی توثیق کرتی تھیں ۔ ان میں زندگی کا سہل تصور، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال واذکار، تجربہ وذہانت پر مبنی نصیحتیں ، صدقہ وخیرات کی ترغیب، انسانیت سے محبت اور عورتوں کے حق ملکیت کا سب سے پہلے اعلان اور اس طرح کی دیگر ایسی وجوہ ہیں جو کہ اسلام کے عمل پسند مذہب ہونے کا واضح ثبوت ہیں جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع الفاظ[اِعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ] ’’پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھیں پھر اللہ پر اعتماد کریں ۔‘‘[1]سے عیاں ہوتا ہے۔ انھوں نے ہمیں ایک عملی مذہبی نظام دیا اور ایک غیبی طاقت کے تحفظ پر اندھا یقین رکھنے کے بجائے ایسا اعتماد بخشا کہ ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور حتی المقدور کوشش اور عمل کرنے کے بعد رضائے الٰہی پر بھروسا کر سکتے ہیں ۔ اسلام میں دیگر مذ اہب کے لیے لچک دار رویے نے اسے روشن خیال لوگوں میں مقبول بنادیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کو عہد نامۂ قدیم وجدید پر ایمان رکھنے والوں سے اچھا سلوک کرنے اور حضرت ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام کو اللہ کے انبیاء کے طور پر تسلیم کرنے کا حکم دیا ہے۔ یقینا دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام میں یہ نظریہ زیادہ قابلِ قبول اور ترقی یافتہ ہے۔ بت پرستی، چاہے جدید شکل میں پوجا کا تصور ہو یا گرجوں کے دریچوں ، طاقچوں اور مزاروں میں رکھے ہوئے ان گنت ولیوں کے مجسّمے اور تصویریں ہوں ، اس بت پرستی سے مکمل آزادی اسلامی عقیدے کے درست، مضبوط اور خالص ہونے کی علامت ہے۔ دین اسلام کی رو سے مسجد، گھر اور دل ودماغ میں ایک اللہ کا تصور ہے جسے عیسائیوں کی طرح بہت سے ولیوں کی رنگین تصاویر اور آراستہ مجسّموں کی پرستش سے داغدار کیا گیا ہے نہ نبی کو اللہ کے مشابہ قرار دینے کا غلط تصور قائم کیا گیا ہے۔جس سے وحی الٰہی سے فیض یاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جن کے ذریعے سے ایک مشرک قوم پر توحید پرستی کا سبق دینے والا قرآن نازل کیا گیا،نیز اللہ کی وحدانیت کے تصور کو الگ سے نبی کی پرستش سے ماند کیا
[1] ۔ جامع الترمذی، صفۃ القیامۃ، [باب حدیث اعقلہا و توکل…]، حدیث: 2517