کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 153
ہوں گے۔ ایک راستہ اس کے سامنے قدیم روایتی رومن کیتھولک مذہب کا ہو گا جو خود کو خطا سے پاک قرار دیتا ہے۔ یہ ایسا چرچ (کلیسا) ہے جو اپنی رسوم، عبادات، قدامت اور پیرو کاروں کی وسیع تعداد کے باعث کئی ذہنوں کے لیے زبردست کشش کا حامل ہے۔ اس کے پیرو کار دنیا بھر میں موجود ہیں اور اس میں مذہبی فرائض سر انجام دینے کے بے شمار طریقے رائج ہیں ۔ پروٹسٹنٹ فرقہ فرد کے اظہارِ حق اور ضمیر، سوچ اور عمل کی آزادی کے دعوے کی بنا پر بعض کو اچھا لگ سکتا ہے، مگر غور سے دیکھنے پر معلوم ہو گا کہ یہ بھی محض روایتی عقائد کی رسمی اور اندھا دھند تقلید کی ایک اور قسم ہے، بالکل اس مذہب (کیتھولک) کی طرح، جس کی جگہ لینے کے لیے یہ وجود میں لایا گیا۔ کئی لوگ عقلیت (Rationalism) پر مبنی فلسفۂ حیات کو اس لیے اچھا سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سائنس کو بہ خوشی قبول کرتا ہے اور پادریوں کی اجارہ داری کو رد کرتا ہے۔ ماضی میں پائے جانے والے تعصبات کو ختم کر کے اس فلسفے نے انسانیت کی بڑی خدمت کی ہے، لہٰذا اُن لوگوں کی نظر میں یہ فلسفۂ حیات مذہب یا سیاست میں حقیقی آزادی کے علم برداردوسرے نظریات و عقائد سے بہتر ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی رسم شکنی (iconoclasm) بلاشبہ انسانی ذہن کو حقیقی آزادئ فکر یا نئی دریافتوں پرغور کرنے کا موقع ملنے تک ضروری ہے۔ سوشلزم اور کمیونزم اپنے سماجی ، معاشی اور سیاسی مساوات کے نظریات کی بنا پر فوری نتائج کے حصول کے لیے بلاشبہ فروغ پا سکتے ہیں اور دنیا میں پھیلی ہوئی موجودہ افراتفری جس کو شدید تر کرنے میں عالمی جنگ (1914-18ئ) نے اہم کردار ادا کیا، دور کرکے انسانی معاشرے کو ازسرِنو منظم کر سکتے ہیں ، اگرچہ یہ نظمِ نو خالص مادیّت پرستانہ ہو گا۔ پچھلے چند سالوں میں کئی نئی نظریاتی تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ تھا کہ دنیا کو جس فکری رہنمائی کی ضرورت ہے وہ فراہم کر سکتی ہیں ۔ ان تنظیموں اور برادریوں کی تعداد ہی وقت کے شعور کی عکاسی کرتی ہے کہ مثالی نظامِ حیات کی طلب دنیا میں شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک یا سب اپنے اپنے لائحہ عمل پر پوری طرح عمل کر سکتیں اور اُن دعووں پر پوری اترتیں جن کا اعلان اور پرچار بآوازِ بلند فصیح و بلیغ انداز میں کیا جا رہا ہے، تو