کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 152
اور عبداللہ ایلیسن نام رکھ لیا۔ انھوں نے مغرب میں اسلام کی دعوت کے لیے سائنسی حقائق کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ یہی مناسب ترین طریقہ ہے۔ مغرب میں حصول علم کا طریقہ یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ انسان ایک محدود تعداد میں خلیات کا مجموعہ ہے اور کائنات دکھائی اور سنائی دینے والی چیزوں کا مجموعہ ہے۔ جب کبھی انسان کوئی چیز دریافت کرتا ہے تو اُسے اپنی کم علمی کا پہلے سے زیادہ احساس ہوتا ہے۔ جب ہم نفسیات اور اس سے متعلقہ مضامین پر غور کریں تو یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ فاضل پروفیسر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ قرآن و حدیث کی تعلیم کی روشنی میں مطالعۂ نفسیات کا ایک ادارہ لندن میں قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ قرآن حکیم میں موجودسائنسی حقائق مغربی دنیا کو بتا سکیں ۔ اس ادارے میں انگریزی اور عربی کتابوں کی ایک لائبریری قرآن کریم کی روشنی میں سائنسی ریسرچ کی تجربہ گاہوں کے علاوہ ہو گی۔[1] [کے محمد- دوحہ، قطر] (K.Mohammad-Doha, Qatar) قبولِ اسلام کی کچھ وجوہات ایک باشعور آدمی جدید فکری رجحانات پر غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اسے اپنی سوچ کا رُخ خود ہی متعین کرنا چاہیے۔کئی مکاتب فکر ہیں اور اظہار کے اتنے طریقے ہیں کہ اگر انسان ایک مشین کی طرح محض اپنے گردوپیش کے افکار و نظریات تک ہی محدود نہ رہے اور ہمیشہ روایتی یا مقبول عام نظریات کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اُسے چاہیے کہ صحرا میں جاکر غور و فکر کرے اور اس سے رہنمائی حاصل کرے۔ ایک مفکر کو داخلی تحریک بھی وہیں جاکر ملے گی جو اُسے اپنے خیالات سے دوسروں کو آگاہ کرنے کے قابل بنا دے گی۔اس کے سامنے کئی راستے
[1] ۔ یقین انٹرنیشنل، 7اپریل1986ء، ج:34، ش:23، ص:271,270