کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 143
سے سجایا گیا تھا۔اُس وقت میں یہ سمجھ گیا کہ عیسائیت کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اُ س سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں سچے دین والی کوئی خوبی موجود نہیں ۔ علامت کے طورپر یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایک سرخ سی لکیر جو تمام مذاہب کو آپس میں مربوط کرتی ہے ، وہ عیسائیت میں غائب تھی اور وہ عظیم انسان جنھیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہا جاتا ہے اگر آج موجود ہوتے تو وہ عیسائی ہرگز نہ ہوتے۔ میں تقریباً مایوس ہو گیا۔ ایک دفعہ پھر میں شدید شکوک و شبہات اور پریشانی کا شکار ہو گیا۔ چرچ سے باہر آکر میں مسجد عمر میں آگیا۔ اس مسجد میں مکمل سکون تھا۔ یہاں کوئی پادری آپس میں لڑ رہے تھے نہ مخصوص خطبات سنا رہے تھے۔ روٹی اور شراب کو معبود بنا رہے تھے نہ یہاں وہ موسیقی تھی جو دلوں کو مسحور کرکے ہوش و خرد سے بیگانہ کر دیتی ہے۔میں ایک کونے میں کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ مسلمان ایک ایک کر کے مسجد میں داخل ہوتے، دروازے کے قریب اپنے جوتے اتاردیتے اور مکہ (خانہ کعبہ) کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرنے لگتے۔ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خوبصورتی سے تراشا ہوا کوئی مجسمہ نہ تھا بلکہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے اکیلا حاضر ہوتا تھا جس کی رحمت کی روشنی سب کے دلوں کو منوّر کر دیتی ہے۔ یہ دیکھ کر مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا اور اسلام کے بارے میں میرے خیالات تبدیل ہونے لگے۔چند روز بعد میں اپنے دوست مسلمان معلم عادل جابر سے ملنے القدس گیا اور اُس سے قرآنِ حکیم کا راڈویل (Rodwell) کا انگریزی ترجمہ عاریتاً لے لیا مگر مجھے یہ سمجھنے میں مشکل لگا۔تب مجھے یہ علم نہ تھا کہ عربی زبان کا ترجمہ زبان دانوں کے بس کی بات نہیں بلکہ صرف وہ مترجم جو اس زبان کے بے پناہ حُسن کو سمجھ سکتا ہو وہی ترجمے میں اس کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بظاہر اُمّی تھے اور انھوں نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا مگر اﷲ کی جانب سے ہدایت کے نُور نے آپ کو انتہائی شدت سے متاثر کیا حتی کہ آپ نے اﷲ کی طرف سے عطا ہونے والی سچائی سے پوری دنیا کو آگاہ کرنے کاتہیّہ کرلیا۔ آپ پر قرآن حکیم کی آیتیں بذریعہ