کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 138
پیغامات اطالوی سفارتی ضوابط کے پابند ہوتے ہیں ۔ وہ ہمیں اس علاقے میں کسی یورپی پر ’’باغیوں ‘‘ کے حملے کی خبر تو دیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ یہ حملے کیوں ہوتے ہیں ؟ یہ نہیں بتاتے کہ پُر امن عرب لوگ جن کا دین انھیں صبر ، تحمل اور سادگی سکھاتا ہے، باغی کیوں ہو جاتے ہیں ؟ اس کتاب میں یہی باتیں بتائی جائیں گی۔کتاب سائرینیکاکا منظر پیش کرتی ہے۔ اس وقت یہی ملک سب سے زیادہ توجہ اور دلچسپی کا مرکز ہے۔ یہیں پر اطالویوں نے ہزاروں حبشی عیسائیوں کو اری ٹیریا (Eriterea) سے لاکر آباد کیا ہے۔ وہ اپنے سینے پر صلیب کی علامت لگاتے ہیں جس کی بنا پر وہ گوری تہذیب کے بلند پایہ علم بردار سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ کتاب اُ س کھوکھلے دعوے کو چیلنج کر تی ہے جو یورپ کی جانب سے اکثر بہ آوازِ بلند کیا جاتا ہے کہ ’’ہم یورپ کے لوگ ان وحشیوں کو تہذیب سکھانے پر مامور ہیں اور ان کے ممالک ہماری امان میں ہیں ۔‘‘ ڈنمارک میں یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور ڈنمارک سے باہر بھی اسے خاصی پذیرائی ملی۔ میری مخلصانہ خواہش ہے ، خواہ حقیقت خدا نخواستہ اس کے کتنی ہی برعکس کیوں نہ ہو، یہ کتاب باقی ماندہ یورپ کو بھی اس طرف متوجہ کر ے گی ۔ اگر یورپ صرف اتنی بات سمجھ جائے کہ اسلام کیا ہے تو میرا مقصد حاصل ہو جائے گا۔اس کتاب پر اخباری تبصرے ملاحظہ فرمائیے: دی پولیٹیکن (The Politiken) کوپن ہیگن لکھتا ہے: ’’نودہولمبو (Knud Holmboe) ایک مسلمان ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے، لہٰذا پڑھنے والوں کو ان کے مسلمان ہونے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔اگرچہ ایسے تیز طرار صحافی کا تصور بہت آسان ہے جو اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کرتے ہوئے مسلمان ہوجائے اور اپنے مذہب کو ایک لبادے کی طرح اتار کر ایک طرف رکھ دے تاکہ خاص خاص موقعوں پر اسے پہنا جاسکے، مگر مسٹر نودہولمبو ایسے موقع پرست انسان نہیں ہیں ۔ ان کاایمان اور عمل دونوں اسلام کے عین مطابق ہیں ۔ انھیں اپنے موقف کے بارے میں ذرا سا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ وہ اللہ کو اپنا رہنما مانتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اس کتاب میں ایک کشش ہے اور ہم ان کی باتوں پر یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہم ان کے ہم سفر بن جاتے ہیں ۔ بلاشبہ شمالی افریقہ میں مرابطی پیشواؤں اور