کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 137
غلط بیانی کرتے ہوئے ان سے کہا تھا کہ میں روسی اشتراکی تحریک کا رُکن ہوں ۔تاہم میں نے آسانی سے یہ ثابت کر دیا کہ مجھ پر یہ الزام بے بنیاد ہے، پھر میں نے مصریوں سے کہا کہ مجھے کفرا جانے کی اجازت دی جائے مگر انھوں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور بالآخر اس سال کے آغاز میں اطالویوں نے ایک خوفناک کارروائی کر کے کفرا پر قبضہ کر لیا۔ اب میں کوپن ہیگن چلا گیااور ایک سلسلۂ مضامین میں شمالی افریقہ پر استعماری قبضے کے بارے میں حقائق منظر عام پر لے آیا۔ اسی دور میں ، میں نے اپنی کتاب (The Desert Burns) ’’صحرا جل رہا ہے‘‘ بھی لکھی جس کی ایک جلد میں نے ووکنگ (Woking) کی مسجد میں بھجوائی ہے۔ چند ماہ میں یہ کتاب ڈنمارک کی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی چھپ جائے گی کیونکہ میری کوشش یہ ہے کہ اس معاملے کے تمام حقائق دنیا کے علم میں آ جائیں ۔اس کتاب کے تعارف کے طور پر میں اس کے دیباچے سے چند سطور کا ترجمہ ذیل میں دے رہا ہوں : ’’1931ء کے آغاز میں اطالویوں نے حبشی فوجوں کے ساتھ مل کر،جنھیں سائرینیکا (Cyrenaica) [1]میں بلوایا گیا تھا، کفرا کے نخلستان پر قبضہ کر لیا جو کہ صحرائے لیبیا کے جنوبی حصے میں واقع ہے۔ مٹھی بھر عربوں کو جنھوں نے گزشتہ بیس سال میں اپنے دین اور اپنے وطن کا حیرت انگیز طریقے سے دفاع کیا تھا، بالآخر اطالوی مشین گنوں کی بے رحم بوچھاڑ کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ یہ مشین گنیں جو مطرالیوز (Miterailleuse) کہلاتی ہیں ، آج کل ایک مہذب قوم آزاد رہنے پر مُصر ایک قوم کو زیر کرنے کے لیے انھیں استعمال کرتی ہے۔‘‘ اس معاملے کے بارے میں روم سے آنے والے ایک تار میں درج مختصر پیغام کے سوا جس میں صرف یہ لکھا تھا کہ ’’ہماری فوجوں نے کفرا پر قبضہ کر لیا ہے‘‘ باقی ماندہ یورپ کو کچھ علم نہ تھا۔ یورپ کو اس معاملے کے بارے میں علم ہوتا بھی کیسے کہ دیارِ مشرق سے آنے والے بہت کم یورپی لوگ وہاں کی مقامی زبان بول سکتے ہیں ۔وہاں سے بیرونِ ملک جانے والے تار
[1] ۔ سائرینیکا، لیبیا کا مشرقی علاقہ ہے جو مصر سے متّصل ہے۔ (م ف)