کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 135
والدین کے پاس رہی۔ اب کسی بیرونی اثر یا محرک کے بغیر میں نے اپنے دل کی خواہش پر اسلام قبول کرنے کا تہیّہ کر لیاتھا، چنانچہ لندن کی مسجد میں کلمہ طیّبہ پر مبنی اقرار نامے پر دستخط کر کے اسلام قبول کر لیا۔ اس وقت تک میں اسلام پر مختلف تحریریں پڑھ چکا تھا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ان کتابوں کی وساطت سے جن کے ترجمے یورپ میں موجود ہیں ، میں اسلام سے واقفیت حاصل کر چکا تھا۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی مفکرین اسلام کے افکار کا مطالعہ کرلیا تھا۔لیکن اس سفر کے آخری مراحل میں جاکر مجھے صحیح معنوں میں اسلام کی حقیقت کا پتہ چلا جوکہ میرے اخلاقی ارتقا کے لیے ضروری تھی۔ اس سفر میں مجھے دل و جان سے اسلام سے محبت نصیب ہوئی جو اب ان شاء اﷲ ہمیشہ میرے دل میں رہے گی۔ تب سے لے کر اب تک میرے لیے سب سے پہلی ترجیح میرا دین ہے اور اگر اﷲ نے چاہا تو میری زندگی اﷲ کے اس دین کے لیے ہمیشہ وقف رہے گی۔ مجھے اپنے اس عزم سے بھی بہت محبت ہے۔ یہاں میں اس سفر کے حوالے سے کچھ تفصیل عرض کرنے لگا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ اس میں ایسی کون سی بات ہوئی جس کی بنا پر اس سفر سے میں بالکل ایک نیا انسان بن کر لوٹا۔ مارچ 1930ء کے وسط میں ، میں اپنی کار میں اٹلی کے ٹریپولی ٹینیا (Tripolitania) یعنی طرابلس کے قلعے سے صحرا میں واقع ایک دوسرے قلعے کی طرف روانہ ہوا۔ ہم نے تقریباً پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کیا اور دوسرے قلعے میں پہنچنے سے پہلے ہم راستہ بھول گئے۔ گیارہ دن تک میں اور میرا ہم سفر لڑکا پریشانی کے عالم میں صحرا میں بھٹکتے پھرے۔ ہمارے پاس تھوڑا سا پانی تھااور سوائے ایک خارپُشت (porcupine) کے ہمیں کھانے کو کچھ نہ مل سکا۔ ہمیں گیدڑوں اور لگڑ بھگوں کا بھی ڈر تھا۔ آخری دو دنوں میں تو ہم دونوں بھوک، پیاس ، خوف اور تھکاوٹ سے تقریباً پاگل ہو گئے۔ تب مجھے یہ احساس ہوا کہ اپنی تہذیب کے دائرے سے باہر انسان کتنا بے بس اور مجبور ہے۔ ان گیارہ دنوں میں میرے دل میں ایک اﷲ پر ایمان پیدا ہو گیا۔ میں نے عہد کیا کہ اگر اﷲ نے میری جان بچا لی تو میں اس سے ہمیشہ نیک عمل کرنے کی توفیق طلب کروں گااور کبھی نیکی کے رستے سے روگردانی نہیں کروں گا۔ اُ س وقت میں نے یہ بھی