کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 127
ہے۔ اس وقت مجھے اسلام کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا، اس لیے میں نے ان پتوں پرخط بھیج کر اسلامی لٹریچر منگوایا اور بڑے شوق سے مطالعہ شروع کیا۔ میرا خیال تھا کہ ان کتب اور جرائد میں بھی مشرکانہ عقائد، توہم پرستی اور دیگر مذاہب کی طرح کافرانہ اعمال کی تلقین موجود ہوگی مگر میرا خیال غلط نکلا۔ اسلام کی بنیاد توحید کامل پر ایمان ہے اور یہ دنیا و آخرت دونوں میں مسرت کے حصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ الحمدللہ مجھے اسلام میں حق مل گیا اور اسی پر میرا ایمان ہے۔ 1972ء میں ، میں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور اپنے دل میں کلمہ پڑھنے کے بعد میں خود کو مسلمان سمجھنے لگا۔28؍ اکتوبر 1975ء کو وزیر پورہ، سیالکوٹ، پاکستان کی مسلم اکیڈمی کے بھائی ابومسلم نوشاہی نے میرا نام عبداللہ تجویز کیا جس کے معنی ہیں ’’اللہ کا بندہ۔‘‘ 18 فروری 1978ء کو میں نے باقاعدہ اسلام قبول کرلیا اور قبول اسلام کے عہد نامے پر دستخط کردیے۔ اس پر تصدیق کے دستخط الحاج محمد جعفر جنرل سیکرٹری ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز (World Federation of Islamic Missions) کراچی نے 2رجب 1396ہجری کو ثبت کیے۔ میں بہت جوشیلا اور متحرک انسان تھا، لہٰذا میں نے سب لوگوں کو فوراً اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتایا تاکہ ان کو بھی حق کا علم ہو اور نجات کی طلب پیدا ہو۔ اس پر ماحول اچانک میرا مخالف ہوگیا اور مجھ سے قطع تعلق کرلیا گیا۔ میرے رشتے داروں نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسلام ترک کرکے میتھوڈسٹ، کیتھولک، دہریہ یا کافر بن جاؤں مگر اسلام چھوڑ دوں ۔ بہرحال میں لوہے کی طرح اپنے عقیدہ پر مضبوط رہا اور اس سے ذرہ بھر انحراف نہ کیا بلکہ قبول اسلام کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوگیا۔ میں نے اپنے چاربھتیجوں عبدالرحمن چوا(Chua) ابراہیم تنگالن(Tangalin) سلیمان بالان (Balan) اور عبدالغفور بالان (Balan)کو بھی مشرف بہ اسلام کیا۔ اس طرح میرے رشتہ دار اور زیادہ مشتعل ہوگئے اور میرے خلاف شدید نفرت کا مظاہرہ کرنے لگے۔ انھوں نے ہمیں ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے دوچار کیا اور ہم سے غلاموں کا سا