کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 124
’’جب وہ گلیل میں رہتے تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا انسان کے بیٹے کو انسانوں کے ہاتھوں سے فریب دیا جائے گا۔‘‘ (انجیل متی: 17؍22) ’’کیونکہ انسان کا بیٹا انسان کی طرح ایک لمبے سفر پر نکلا ہے۔ اس نے اپنا گھر چھوڑ دیا۔ اپنے اختیارات اور تصرف نوکروں کو دے دیے اور ہر آدمی کو اس کا کام کرنے کی اجازت دے دی اور چوکیدار کو حکم دیا کہ تو گھر کی نگرانی کرنا۔‘‘(انجیل مرقس: 13؍34) ’’اللہ کی رحمت ہو تم لوگوں پر جب لوگ تم سے انسان کے بیٹے کی خاطر نفرت کریں گے، تمھیں اپنے سے الگ کردیں گے، تمھیں ملامت کریں گے اور تمھیں برے نام سے پکاریں گے۔‘‘ (انجیل لوقا: 6؍22) ’’اور کوئی آدمی آسمان پر نہیں پہنچا سوائے اس کے جو آسمان سے نیچے آیا حتیٰ کہ انسان کا وہ بیٹا بھی جو آسمان پر ہے۔‘‘ (انجیل یوحنّا: 3؍13) ٭عقیدئہ کفّارہ:’’باپ کوبچوں کے جرم میں قتل کیا جائے گا نہ ہی بچوں کو باپ کے جرم میں بلکہ ہر آدمی کو اس کے اپنے گناہ کی سزا ملے گی۔‘‘ (2خطوط: 25؍4) ’’خطاکار کو موت آئے گی۔ باپ کا جرم بیٹے پر عائد ہوگا نہ بیٹے کا جرم باپ پر عائد ہوگا۔ اچھوں کی اچھائی ان پر عائد ہوگی اور بروں کی برائی ان پر عائد ہوگی۔ ‘‘ (حزقیل: 18؍20) مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ نظریۂ کفارہ بے بنیاد ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ عیسائیوں کے قول کے مطابق واقعی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انسانیت کی نجات کے لیے مصلوب کرواتا تو پھر گویا عیسائیوں کا خدا اپنے ہی قول کی تردید کرتا ہے اور نعوذ باللہ بے رحم اور بے انصاف ٹھہرتا ہے۔ گویا اللہ یہ امتیاز برتتا ہے کہ وہ کسی معصوم انسان کو دوسروں کے گناہوں کی سزا بھگتنے دیتا ہے۔ (حالانکہ اللہ تعالیٰ ایسا ہرگز نہیں کرتا!) ٭تثلیث:’’اے اسرائیل! سن، خداوند ہمارا خدا، ایک ہی خداوند ہے۔‘‘ (استثنا: 6؍4)