کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 123
اللہ تعالیٰ کے بیٹے یا اکلوتے پیدا کیے گئے بیٹے تھے۔ یہ نظریہ بھی حضرت عیسیٰ کی تعلیمات و اقوال سے متصادم ہے۔ بائبل میں ابن اللہ کئی دیگر انبیاء کو بھی کہا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی اللہ کا بیٹا کہا گیا ہے: ’’وہ میرے نام کی خاطر ایک گھر بنائے گا اور وہ میرا بیٹا ہوگا، میں اس کا باپ ہوں گا اور میں اسرائیل پر اس کی سلطنت ہمیشہ کے لیے قائم کردوں گا۔‘‘ (1خطوط: 10؍22) اسرائیل کو بھی اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا گیا ہے: ’’اور تو فرعون سے کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے: ’’اسرائیل میرا بیٹا ہے بلکہ میرا پہلا بیٹا ہے۔‘‘ (خروج: 4؍22) اور ثالثوں (صُلح جو انسانوں ) کو بھی اللہ کا بیٹا کہا گیا ہے: ’’ثالثوں پر اللہ کی رحمت کیونکہ انھیں اللہ تعالیٰ کے بچے کہا جائے گا۔‘‘ (انجیل متی: 5؍9) ’’میں یہ حکم جاری کروں گاکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کہتا ہے:’’تو میرا بیٹا ہے جسے میں نے آج پیدا کیا۔‘‘ (زبور: 2؍7) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درج ذیل اقوال سے یہ مزید ثابت ہوجائے گاکہ آپ صرف مجازی طور پر خود کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا کرتے تھے: ’’عیسیٰ علیہ السلام نے انھیں جواب دیا: کیا تمھارے قانون میں یہ لکھا ہوا نہیں ہے کہ میں نے کہا:’’تم لوگ خدا ہو؟‘‘ اگر عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کو خدا کہتے ہیں تو خدا کا پیغام کس پر نازل ہوا؟ اور اللہ کے صحیفے میں ردوبدل ناممکن ہے: ’’اس کے بارے میں کہو جس کو اللہ تعالیٰ نے مقدس بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔ تم کفر بکتے ہو کیونکہ میں نے یہ کہا تھا کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں ۔‘‘ (انجیل یوحنّا: 10؍36-34) بعد ازاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انجیل کی کئی آیات میں خود کو انسان کا بیٹا کہا ہے۔ مثلاً: