کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 120
سہارا بنتے ہیں (تو یقینا لوگ سوشلزم کے بجائے اسی دین کو قبول کرلیں گے۔) انسانیت کو تین طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اول: وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جائداد اور دولت سے نوازا ہے۔دوم :وہ لوگ جنھیں اپنی روزی خود کمانا پڑتی ہے اور سوم: وہ لاتعداد لوگ جو بے روزگار یا کسی اور وجہ سے اپنی خطا کے بغیر پسماندگی کا شکار ہیں ۔ ذہنی تناؤ اور مقابلے کی فضا کے اس پرآشوب دور میں جہاں ہر آدمی بہت زیادہ دباؤ کے تحت زندہ رہتا ہے اور کام کرتا ہے ہمیں اس زمانے میں ایک ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جو ان تینوں طبقوں کی مشکلات دور کرسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ذریعے سے قرآن کریم میں ، جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے،ہمیں بتاتے ہیں کہ جو لوگ صاحب حیثیت ہیں انھیں چاہیے کہ اپنی سالانہ آمدنی کا ڈھائی فیصد ان لوگوں کو دیں جو حاجت مند ہیں ۔(اس آخری کتاب کے ساتھ ساتھ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نسل اور ہر علاقے کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح انبیاءعلیہم السلام بھیجے اور تمام انبیاء کے پاس صحیفوں کی خالص شکل میں اللہ تعالیٰ ہی کے ارشادات تھے۔) اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ افزائی نہ کریں بلکہ صرف ان پر خرچ کریں جو صحیح معنوں میں حاجت مند ہوں اور جنھیں کسبِ معاش کے لیے بنیادی سہارا درکار ہو۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام ایک سوشلسٹ نظریہ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آج کے سوشلسٹ نظریات جیسا ہے جن سے ہم مغرب میں متعارف ہیں کیونکہ ہم مسلمانوں کو تو ہر جمعہ کے خطبے میں حاکمِ وقت کی اطاعت کا حکم یاد دلایا جاتا ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو (یہ حکم بعض شرائط کے تحت ہے) اور بغاوت کو گناہ قرار دیا جاتا ہے۔جب ہم کسی ظالم حکمران کے زیراقتدار امن سے نہ رہ سکیں تو اس صورت میں ہجرت کا حکم ہے۔ پھر اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ صلاحیت و قابلیت اور انفرادیت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ دین تخریبی نہیں بلکہ تعمیری ہے، مثلاً اگر ایک امیر زمیندار اپنی زمین کو کاشت کرنے کی ضرورت