کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 115
ہیں ۔ جبکہ عیسائیت ان شکوک اور بدگمانیوں کے ازالے کے لیے ناکافی ثابت ہورہی ہے اور عیسائیت کا زور اس بات پرہے کہ اس کے تمام نظریات کو کسی ثبوت اور دلیل کے بغیر مان لیا جائے۔ مثال کے طورپر میرا ذہن اس عیسائی عقیدے کو ماننے پر آمادہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دنیا بھر کی انسانیت کے گناہ کا کفارہ بنا کربھیجا۔ یہ بات بھی مجھے اچھی نہ لگی کہ تمام نوع انسانی مختلف قسم کے گناہوں میں لتھڑی ہوئی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے سے اللہ کے بندوں کے سارے گناہ معاف ہوگئے۔ میں یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ اپنے بندوں کو بچانے کی تمام تر قدرت اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور وہی ان کو گناہوں اور جرائم سے روک سکتا ہے۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے گناہوں کو معاف کرسکتا ہے۔میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ انبیاء علیہم السلام کو اپنے بندوں کے گناہوں کا کفارہ بنانے کا نظریہ اللہ تعالیٰ پر (نعوذ باللہ) غلطی اور ناانصافی کے الزام دھرنے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف انسان کو گویا کسی رکاوٹ اور جھجک کے بغیر گناہوں اور جرائم کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ جب کبھی میں نے ان شبہات کا کسی عیسائی عالم یا پادری کے سامنے اظہار کیا تو اس نے مجھے یہ ہدایت کی کہ ان شبہات کو ذہن سے نکال دو اور مجھے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ میں عیسائیت کے ان نظریات و عقائد کو بغیرکسی شرط یا شک و شبہ کے قبول کرلوں ۔ انھوں نے مجھ پر بہت دباؤ ڈالا کہ ان کے ناکافی دلائل پر اعتراض نہ کروں تاکہ یہ شکوک و شبہات میرے ذہن میں مزید پرورش نہ پاسکیں ۔ سچ معلوم کرنے کی خواہش ہر لمحہ اس قدر بڑھ رہی تھی کہ میں تمام عقائد اور شریعتِ الٰہی سے منکر ہونے کے نازک موڑ پر آپہنچا۔ ان دنوں مجھے ایک قابل اور باعمل مسلمان سے واسطہ پڑا جو یورپی تہذیب و تمدن کی زرق برق زندگی کے زیرِ سایہ ہونے کے باوجود خود کو مسلمان کہنے پر فخر کرتا تھا۔ اس شخص کا یہ دعویٰ تھا کہ اسلام کی برکت سے اسے دل و دماغ کا سکون میسر ہے اور دوسری طرف میرے دل میں مذہب سے نفرت اور بیزاری جڑ پکڑ چکی تھی۔ اس شخص کے اس دعوے پر مجھے حیرت ہوئی اور