کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 112
٭مشکلات:سینٹ ونسنٹ (St.Vincent) کالج میں میری شہرت دن بہ دن خراب ہونے لگی اور مجھے یقین ہوگیا کہ تیسرے اور آخری سال میں مجھے داخلہ نہیں دیا جائے گا اور بالآخر ایسے ہی ہوا۔ سال دوم کے بعد پرنسپل نے مجھے داخلہ دینے سے انکار کردیا اور مجھ سے کہا کہ کسی اور کالج میں چلے جاؤ جو کہ میرے لیے ناممکن تھا کیونکہ کوئی بھی کالج آخری برسوں میں کسی طالب علم کو داخلہ نہیں دیتا تھا۔ میں نے ہندو دیوی دیوتاؤں سے دعائیں کرنا شروع کیں مگر وقت گزرتا گیا اور میرا کام نہ ہوا۔ تین ماہ اسی طرح گزر گئے اور پرنسپل صاحب مجھے داخلہ دینے سے برابر انکار کرتے رہے۔ میری تمام امیدیں ختم ہوگئیں تو امید کی ایک نئی کرن نمودار ہوئی۔ یہ امید تھی اللہ سے جسے میں پہلے پہچانتا نہ تھا اور جو مجسم یا پیکرِ محسوس ہونے سے ماورا ہے۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ اگر مجھے اس کالج میں داخلہ مل جائے تو میں شادی کے بعد مسلمان ہوجاؤں گا۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ جو کام تین ماہ میں نہ ہوسکا وہ دو دن میں ہوگیا اور میرا اللہ پر ایمان اور پختہ ہوگیا۔ پھر مجھے اسلام کے لیے شادی تک انتظار نہ کرنا پڑا۔ میں نے اپنی ہندو منگیتر سے کہا کہ کیا وہ قبول اسلام کے بعد بھی مجھ سے شادی کرنے کو تیار ہوگی۔ اس نے طرح طرح کے جذباتی الفاظ میں مجھے یقین دلایا کہ شادی کے بعد وہ بھی اسلام قبول کرلے گی۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے والدین سے مشورہ نہیں کیا۔ بالآخر 2 نومبر1985ء کو میں کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور مہاراشٹر ہیرالڈ (Maharashtra Herald) نامی جریدے میں اپنے قبول اسلام کا اعلان شائع کرادیا۔ پھر تو میرے لیے مصائب شروع ہوگئے۔ پہلے میرے والدین نے گھر میں میری زندگی عذاب بنا دی اور میری منگنی ٹوٹ گئی۔ میری منگیتر کے الفاظ نقش برآب ثابت ہوئے اور اس کی مجھ سے دلچسپی ختم ہوگئی۔ اس دوران میں میرے والد نے فاطمہ نگر میں ایک فلیٹ بک کرالیا تھا اور یکم جنوری 1985ء سے میرا خاندان وہاں منتقل ہوگیا اور مجھے اس نازک عمر میں دنیا کے حوادث و آلام کا سامنا