کتاب: اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں ؟ - صفحہ 106
اسلام کی آغوش میں اسلام نے مجھے کیوں متاثر کیا؟ راقم السطور نو مسلم ہے۔ مغربی ذہن کو سب سے زیادہ اسلام کی سادگی ہی متاثر کرتی ہے۔ ایک دو اور ایسے مذاہب بھی ہیں جن کے عقائد بہت سادہ اور سہل ہیں مگر ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین جیسی حیات آفرینی، اخلاقی اور روحانی رفعت مفقود ہے۔ اسلام کی سادگی وپاکیزگی جذباتی یا نامعقول لوگوں کو متاثر کرتی ہے نہ ان لوگوں کو جو مذہب میں اداکاری پسند کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے دوسرے مذاہب میں کشش کا سامان موجود ہے۔ ایسے لوگوں کو تسکین ایسی جگہوں اور ایسے نظاموں میں ملتی ہے جہاں رنگوں کی چکاچوند آنکھ کو، کلاسیکی موسیقی کان کو اور حد سے زیادہ سجی قربان گاہیں اور جذباتی ڈرامے دل کو تفریح مہیا کرتے ہیں کیونکہ ایسے مذاہب میں انسانی ذہن کے تقاضوں کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایک بڑی بات یہ ہے کہ ان مذاہب میں انسان کو مذہبی معاملات میں اپنی سوچ سے کام لینے کی اجازت قطعاً نہیں دی جاتی بلکہ ذہن کو ایک برتن سمجھا جاتا ہے جس میں چرچ کا مقررہ پادری جو کچھ ڈالنا پسند کرے وہی اس کے لیے کافی سمجھا جائے۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے پیروکاروں کو یہ حکم ان مذاہب کے احکام سے کتنا مختلف ہے: ’’علم حاصل کرو خواہ تمھیں اس کی خاطر چین بھی جانا پڑے۔‘‘[1] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے آگاہ تھے کہ گناہ سے انسان کی عقل اور اس کی ذہانت پرکتنا بُرا اثر پڑتا ہے۔
[1] ۔ یہ حدیث نہیں بلکہ کسی بزرگ کا قول ہے۔ جہاں تک حصول علم کی فضیلت کا تعلّق ہے، اس سلسلے میں یہ حدیث بیان کرنا کافی ہے: [طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ] ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، حدیث: 224)