کتاب: اسلام دینِ حق - صفحہ 18
ہے اور نہ ہی تھکاوٹ ۔ اور روزانہ کی اس کی حرکت کی مقدار ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔
پھر یہ خون جو جسم کے اندر مسلسل حرکت میں ہے؛ جو زندگی سے بھر پور ہے۔ انسان سائنس اور ٹیکنا لوجی کی انتہائی ترقی کے باوجود اس زندہ اور رواں خون کا ایک خلیہ نہیں بنا سکا اور نہ ہی ایسا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
قلب کی تکون پر یہ ایک سرسری سی نظر تھی۔ انسان کے جسم میں کئی دوسرے آلات یا اعضاء ایسے ہیں جن کی اہمیت اور کردار اور تخلیقی دقت اور باریکی کسی بھی طرح دل کی اہمیت اورتخلیقی دقت و باریکی سے کم نہیں ہے۔ … تو کیا کوئی ایسا عاقل جسے اپنی عقل کا احترام ہو؛ وہ جرأت کرکے یہ کہہ سکتا ہے ؛ کہ یہ انسان بغیر کسی خالق کے خود بخود پیدا ہوگیا ہے؟
[دیکھیں کتاب:’’رحلۃ الایمان فی جسم الانسان ]
بلا شک و شبہ کبھی کبھار عقل کو بھی دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ لیکن پھر بھی معاملہ یہاں تک نہیں پہنچ سکتا کہ اسے انسانی زندگی کے سب سے بڑے معاملہ میں دھوکہ دیدیا جائے ۔ بلکہ یہ تمام انسان وجود کا معاملہ ہے۔ کسی عاقل کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ یہاں پر پہنچ کر اس کی عقل سست پڑجائے اور وہ اس کی حقیقت تک رسائی کے بغیر کوئی نتیجہ اخذ نہ کرسکے۔
جو لوگ بغیر احساسات کے جی رہے ہیں ؛ حقیقت تو یہ ہے کہ ان پر حیوانی شہوات کا غلبہ ہے۔ یہ اس امر کے اہل نہیں ہیں کہ انسانی درجہ تک ترقی کرسکیں۔ اسے تواپنی خواہشات میں ہی پڑے رہنا چاہیے حتی کہ اگلے جہاں میں اسے بیداری آئے گی جہاں پر تمام لوگ بیدار ہی ہوں گے ؛ مگر اس وقت کی بیداری کچھ بھی کام نہ آئے گی۔
تیسرا مفروضہ : وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ معبود برحق علیم و حکیم کی تخلیق ہے۔اسی معبود برحق نے اسے پیدا کیا؛ شکل و صورت دی اور بہترین اور پختہ شکل و صورت بنائی ۔ اور انہیں وہ دقیق و فعّال اعضاء عطا کیے جو کہ اس کے عظیم علم و حکمت پر دلالت کرتے ہیں۔
یہ مفروضہ اصل میں مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔جس پر موجودات گواہی دیتی ہیں اور کوئی بھی عقلمند انسان جسے اپنی انسانیت کا احترام ہو؛ وہ اس کے علاوہ کسی اور عقیدہ کو قبول نہیں