کتاب: اسلام دینِ حق - صفحہ 16
ہم کہتے ہیں: اس بارے میں تین باتیں فرض کی جاسکتی ہیں:
اول : انسان نے خود اپنے آپ کو پیدا کر لیا ہو۔
دوم: وہ کسی کے پیدا کرنے کے بغیر ہی وجود میں آگیا ہو۔
سوم: یا کسی دوسرے نے اس کو پیدا کیا ہو۔
میں کہتا ہوں: پہلا مفروضہ بالکل باطل ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان معدوم ہو ؛ اور پھر اپنے آپ کو وجود بخش دے ۔
اور پھر کیا انسان اپنے وجود میں آنے کے بعد کسی دوسرے انسان کو پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تو اس کا یقینی جواب ہے کہ : ہر گز نہیں۔
تو ثابت ہوا کہ پہلا مفروضہ باطل ہے۔
دوسرا مفروضہ : انسان نے خود اپنے آپ کو پیدا کرلیا ہے؛ کوئی دوسرا پیدا کرنے والا نہیں۔
اس کا جواب دینے سے پہلے چند مقدمات کی ضرورت ہے تاکہ جواب صحیح ہو:
۱۔ انسان خواہ مرد ہو یا عورت۔وہ کیسے وجود میں آیا؟ کیا پہلے مردوجود میں آیا اور پھر عورت ؟ یا پھراس کے برعکس ؟یا دونوں ایک ساتھ وجود میں آئے؟ یا پھر کوئی یہ گمان رکھ سکتا ہے کہ اس نے پہلے اپنے آپ کو وجود بخشا اور پھر اپنے لیے دوسرے کو پیدا کیا؟
۲۔ مرد اور عورت ہر ایک میں کچھ ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جس سے دوسرے کی تکمیل ہوتی ہے؛ اور دوسرے کے اوصاف سے مطابقت رکھتے ہیں۔اگر ان میں سے بعض مواصفات میں خلل پڑجائے تو زندگی معدوم ہوجائے۔
اس کی مثال: …جنین کا دو حصوں مذکر اور مؤنث میں تقسیم ہونا۔ایسا ممکن نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر بچہ پیدا کردے۔بچہ پیدا کرنے کے لیے نراورمادہ[مذکر اورمؤنث] دونوں کے خلیہ[ cell ] کا ہونالازمی ہے۔
۳۔ انسان جن چیزوں سے ترکیب پاتا ہے؛ وہ انتہائی دقیق ہیں۔اور ان میں سے ہر ایک چیز کی اپنی ذمہ داری ہے جو کہ کوئی دوسرا پوری نہیں کرسکتا۔ مثلاً نظام انہضام؛ پٹھوں اور