کتاب: اسلام اور مستشرقین - صفحہ 121
ہمارا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے یہ کہنا قطعی طور پرغلط ہے کہ آپ اپنے اوقات کا اکثرحصہ غار حراء میں گزارتے اور مراقبہ کرتے تھے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بیان کے مطابق آپ نبوت ملنے سے پہلے سال میں صرف ایک مہینہ غار حراء میں قیام کرتے تھے15 ۔. بعض سیرت نگاروں کے مطابق آپ نے اپنی عمر کے اڑتیسویں سال سے اس کا آغاز کیا اور چالیسویں سال میں، جس مہینے آپ نے قیام فرمایا، وہ رمضان کا مہینہ تھا اور یہ تیسرا سال تھا کہ جس میں آپ نے غارِ حراء میں قیام فرمایا۔ پس اپنی عمر کے چالیسویں برس تک آپ کا غار حرا میں کل قیام محض تین ماہ کا تھا۔ غار حرا کے قیام کے تیسرے سال حضرت جبرائیل u وحی لے کر نازل ہوئے۔ اسی طرح جب پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر ورقہ بن نوقل کے پاس تشریف لائیں تاکہ معلوم کریں کہ معاملہ کیا ہے تو ورقہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے دیکھا ہے، وہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لایا تھا۔ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا، ورقہ بن نوفل نے نہ صرف اُس کے حق ہونے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی پیشین گوئی کی کہ آپ کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے گھر سے نکال دے گی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش وہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کر سکیں۔ یہ ورقہ بن نوفل وہ عیسائی عالم دین تھے جو دین عیسائیت میں بوڑھے ہوئے تھے اور انجیل کو اپنے ہاتھ سے عربی زبان میں لکھتے تھے۔16 آپ کے معاصر عیسائی عالم دین کو توآپ سے ملاقات کے بعد یہ احساس نہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حراء میں کوئی خواب دیکھا ہے، لیکن ۱۲ سو سال بعد ایک عیسائی مشنری کو یہ خواب آتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے تھے اور اسے حقیقت سمجھ لیتے تھے! سپرنگا نے لکھا ہے کہ قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں دین اسلام تین مراحل سے گزر کرایک نظامِ زندگی کی صورت میں سامنے آیا۔ پہلا مرحلہ تو یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے مذہب کے بارے اپنے مراقبوں میں سوچ بچار شروع کی اورانہوں نے اپنے آباء واَجداد کے دین کوحیرت کی نظر سے دیکھتے ہوئے اسے ایک خدا پر ایمان کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوشش شروع کی: