کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 46
حبشی لوگ عید کے روز مسجد میں ’’رقص کر رہے تھے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے بلایا تو میں نے اپنا سر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے کندھے پر رکھا اور میں ان کے کھیل کی طرف دیکھنے لگی۔ غور فرمائیے یہ بھی اسی نوعیت کا واقعہ ہے جسے امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے ’’حبشیہ‘‘ کے لفظ سے نقل کیا ہے،اور اس میں بھی تقریباً وہی تفصیل ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے۔ بلکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ اصل روایت ہی حبشیوں سے متعلق ہے اور ترمذی وغیرہ کی روایت میں راوی کا وہم ہے۔ اس سے قطع نظراگر ’’ حَبَشِیَّۃٌ تَزْفِنُ‘‘ سے ’’ماہر فن رقاصہ ‘‘مراد ہے تو ’’ حَبَشٌ یَزْفِنُوْنَ‘‘ کے معنی بھی ’’ماہر فن رقاص‘‘ ہونا چاہیے اور اس ’’فن رقص‘‘ کا مظاہرہ مسجد میں ہونا چاہیے اورانھیں معاذاﷲ Dancing Clubقرار دینا چاہیے۔ لیکن ابھی تک اہل اشراق کی اس طرف توجہ نہیں ہوئی،ممکن ہے مستقبل قریب میں اس کے جواز کا بھی فتویٰ صادر کر دیا جائے۔[1] علامہ نووی رحمہ اللہ اسی ’’یَزْفِنُوْنَ‘‘ کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : معناہ یرقصون وحملہ العلماء التوثب بسلاحھم ولعبھم بحرابھم علی قریب من ھیئۃ الراقص [شرح مسلم:۱/۲۹۲]
[1] بلکہ علامہ الجزری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا’’تزفن للحسن ای ترقصہ‘‘ حضرت حسن کو ’’رقص ‘‘ کراتی تھیں [النھایۃ :۲/۳۰۵] یہی روایت اسی معنی سے لسان العرب[۱۷/۵۸] میں ہے جب کہ تاج العروس [۲/۲۲۶] میں اس کے معنی یوں بیان ہوئے ہیں : ای ترقص لہکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاحضرت حسن کا دل بہلانے کے لیے رقص کرتی تھیں۔ دراصل یہ تزفن للحسن نہیں بلکہ تزفن الحسن ہے اسی اعتبار سے اس کے معنی ’’ ترقصہ‘‘کے ہیں۔ مسند امام احمد [۶/۲۸۳] میں ’’ کانت تَنقّز الْحَسْن‘‘ کے الفاظ سے ہے۔ مگر یہ منقطع ہے۔ اوراس کے معنی بھی ’’رقص‘‘ اور اچھلنے کودنے ہی کے ہیں۔ ممکن ہے مسند احمد کے کسی نسخہ میں ’’ تزفن‘‘ ہو۔ تو کیا یہاں بھی س روایت کے مطابق کہا جائے گاکہ معاذاﷲ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکا گھر ’’رقص سنٹر‘‘ تھا اور وہ بچپن ہی میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ’’رقص‘‘ سکھاتی تھیں ؟ ہر گز نہیں بلکہ یہاں بھی مراد رقص کی طرح اچھلنا کودنا ہے۔ جیسا عموماً والدین پیار سے اپنے بچے کو اچھالتے ہیں۔