کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 45
’’ماہر فن رقاصہ‘‘ توا پنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے زیوروں کی جھنکار کو ہی نمایاں نہیں کرتی بلکہ اپنے جسمانی اعضاء کو بھی نمایاں کرنے اور ناظرین کے لیے کشش کا باعث بننے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتی۔ غور فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ نے جب زمین پر پاؤں مار کر چلنے سے منع فرما دیا تو کسی ایمان دار باحیا عورت کے لیے ’’ماہر فن رقاصہ‘‘ بننے کا جواز کہاں سے پید اہوگیا؟
تہذیب جدید کے دانشوروں کا انداز عجیب ہے کہ لونڈیوں اور غلاموں سے متعلقہ اسلام کے احکام و مسائل پر تو معترض ہوتے ہیں،مگر لونڈیوں کے ایک عمل سے مطلقاً ’’ماہر فن رقاصہ‘‘ کا ثبوت دینے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے اور ان کے اس عمل کو تفریح اور لطف اندوز ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔
زفن کے معنی
پھر یہ بات بجائے خود غور طلب ہے کہ زیر بحث روایت میں ’’رقص ‘‘ کے ثبوت کے لیے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے ’’ تزفن‘‘ جس کا مصدر ’’ زفن‘‘ ہے جس کے معنی ’’رقص‘‘ نہیں بلکہ رقص کی طرح اچھلنے کودنے اور پاؤں اوپر نیچے کرنے کے ہیں۔ چنانچہ لغت کے معروف امام علامہ ابن درید رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الزفن شبیہ بالرقص۔[جمھرۃ اللغۃ:۳/۱۲] زفن،رقص کی طرح حرکت کرنے کا نام ہے اور توسعاً اس کو رقص سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یعنی یوں نہیں کہ اصلی اور حقیقی معنی ہی رقص ہے بلکہ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’زفن الحبشۃ نوع من المشی بتشبیب یفعل عند اللقاء بالحرب‘‘[تلبیس ابلیس:ص ۲۲۵]
کہ حبشیوں کا ’’زفن‘‘ چلنے کی ایک قسم ہے جو لڑائی کی ابتداء میں چلی جاتی ہے۔ اس کے معنی اگر رقص بلکہ ’’ماہر فن رقاص‘‘ کے ہیں تو پھر کہنا چاہیے کہ اس فن کا مظاہرہ مسجد میں ہونا چاہیے۔ مسجدیں اﷲ تعالیٰ کے ذکر و عبادت اور تعلیم و تعلم کے لیے نہیں بلکہ ماہرین فن رقص کے لیے بھی کھلی رہنی چاہئیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی روایت میں ہے کہ:
جَآئَ حَبَشٌ یَزْفِنُوْنَ فِیْ یَوْمِ عِیْدٍ فِی الْمَسْجِدِ۔ الخ [مسلم:۱/۲۹۲]