کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 44
ہے۔ اور خارجہ رحمہ اللہ بن عبداﷲ نے جو اسے یزید رحمہ اللہ بن رومان عن عروۃ سے ایک دوسرا واقعہ بیان کیا ہے اس میں اس کو وہم ہوا ہے اور اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت جو آئندہ آ رہی ہے ان دونوں کو ملا کر ایک اور واقعہ بنا دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو اس کا انکار کیا ہے وہ بے معنی نہیں۔ نسائی وغیرہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہے کہ حبشیوں کے کھیل کو دیر تک دیکھنے کا باعث یہ تھا ان یبلغ النساء مقامہ لی کہ عورتوں کو پتا چل جائے کہ میرا آپ کے ہاں کیا مقام و مرتبہ ہے اور ترمذی کی روایت میں بھی ہے:’’ لأنظر منزلتی عندہ ‘‘ میں دیکھو ں کہ میرا آپ کے ہاں کیا مرتبہ و درجہ ہے۔ اور یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و متانت کے منافی ہے کہ وہ بار بار اس بات کا تجربہ کریں کہ دیکھوں میرا آپ کے ہاں کیا درجہ ومرتبہ ہے۔ اس لیے یہ روایت معنوی طور پر بھی محل نظر ہے۔ ثانیاً ’’حبشیۃ‘‘ کا لفظ محل غور ہے۔ محدث ناصر الدین البانی مرحوم نے فرمایا کہ یہ لفظ ’’حبشہ‘‘ ہے۔ حبشیۃ نہیں۔ جیسا کہ انھوں نے صحیح الترمذی[ج۳ ص ۲۰۶،رقم :۳۹۵۵] میں جامع الترمذی کے ایک خطی نسخے کے حوالے سے لکھا ہے۔ لیکن مشکوٰۃ جامع الاصول للجزری [ج۹ص۴۴۹] اور السنن الکبریٰ للنسائی [ج۵ ص۳۰۹]،الکامل ابن عدی [۳/۹۲۱] میں ’’حبشیۃ‘‘ ہی ہے کہ وہ حبشی عورت تھی۔ بلکہ العلل الکبیر للترمذی [۲/۹۳۶]میں بھی ’’حبشیۃ‘‘ ہی ہے مگراس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ ماہر فن رقاصہ تھی،جب روایت میں کسی لفظ سے اس کے ’’ماہر فن رقاصہ‘‘ ہونے کا ثبوت ہی نہیں تواس کے ’’رقص‘‘ سے ’’لطف اندوز‘‘ ہونا چہ معنی دارد؟ بلکہ روایت کے کسی لفظ سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان بھی تھی یا نہیں اور اس کا اعتراف تو اہل اشراق نے کیا ہے کہ وہ لونڈی تھی ’’گھریلو عورت کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اس طریقے سے لوگوں کے سامنے فن کا مظاہرہ کرے۔‘‘[اشراق:ص ۳۵] ایمان دار عورتوں کو تو حکم ہی یہ ہے کہ : ﴿ وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ﴾[النور:۳۱] وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔