کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 43
انھوں نے اس روایت کو ’’العلل الکبیر‘‘ میں بیان کیا اور فرمایا کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے جب اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے اس روایت کی معرفت سے انکار کیا اور اسے غریب قرار دیا۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں :
’’ سالت محمدا عن ھذا الحدیث فلم یعرفہ واستفرغ بہ۔‘‘ [العلل الکبیر:۲/۹۳۷]
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے الکامل (ج ۳ ص ۹۲۱) میں یہی روایت خارجہ رحمہ اللہ بن عبداﷲ کے ترجمہ میں ذکر کی۔اور یوں انھوں نے بھی اس کے بیان کرنے میں خارجہ کے تفرد کا اشارہ کیا ہے۔ خارجہ بن عبداﷲ کو اگرچہ امام ابن معین رحمہ اللہ اورابن عدی رحمہ اللہ نے لیس بہ بأس ابو حاتم رحمہ اللہ نے شیخ حدیثہ صالح کہا ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے مگر امام احمد رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام الازدی رحمہ اللہ کہتے ہیں وہ مختلف فیہ راوی ہے اس کی حدیث مقبو ل ہے،بہت منکر ہے او ر وہ صدق کے زیادہ قریب ہے۔ [التہذیب:۳/۷۶]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہی مختلف اقوال کی بنا پر اسے ’’صدوق لہ اوہام ‘‘قرار دیا ہے۔ [التقریب :ص ۱۳۳]
ایسے راوی کی روایت بلاشبہ مقبو ل ہوتی ہے،بشرطیکہ اس سے اس روایت میں وہم نہ ہو اور ثقات کی مخالفت نہ کی ہو۔ زیر بحث روایت میں وہ منفرد ہے اور عروہ سے امام زہری،عروہ کے صاحبزادے ہشام اور محمد بن عبدالرحمن اسے حبشیوں کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو مسجد میں عید کے روز ڈھالوں اور نیزوں سے (گتکے کی طرح) کھیل رہے تھے۔ ان کے اسی کھیل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اﷲعنہا کو دکھایا جیسا کہ صحیح بخاری [۱/۱۳۰] ، مسلم[۱/۲۹۱،۲۹۲]،السنن الکبریٰ[۵/۳۰۷تا۳۰۹]،الاحسان[۷/۵۴۴،۵۴۵]،مسنداحمد [۶/۸۴،۸۵،۱۶۶،۲۷۰]،عبدالرزاق [۱۰/۴۶۵،۴۶۶] ،طبرانی کبیر [۲۳/۱۷۹،۱۸۰]،بیہقی[۷/۹۲]وغیرہ میں ہے۔ بلکہ ابوسلمۃ بن عبدالرحمن،عبید بن عمیر،عمر وبن حریث اور عکرمہ بھی حضرت عائشہ سے یہی روایت ذکر کرتے ہیں۔ [مسلم و نسائی] اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اختصاراً یہی واقعہ بیان کرتے ہیں۔ [مسلم،عبدالرزاق،الاحسان]جس سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ عروہ عن عائشہ سے یہی حبشیوں والا واقعہ مروی