کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 42
آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کی وضاحت کے بعد ضرورت تو نہیں رہ جاتی کہ اس سلسلے میں ان کے وسواس کا بودا پن ظاہر کیا جائے تاہم آئیے،ان کے استدلال کی حقیقت بھی معلوم کر لیجیے۔ لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ۔ پہلی حدیث چنانچہ اس کے ثبوت کے لیے اولاً حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی حسب ذیل روایت سے استدلال کیا ہے،جس کا ترجمہ انہی کے الفاظ میں یوں ہے: ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ یک بہ یک ہم نے بچوں کا شور سنا۔ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی تھی،بچے اس کے اردگرد موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ آکر دیکھو۔ سیدہ کہتی ہیں کہ میں آئی اور اپنی تھوڑی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے پر رکھ کر آپ کے کندھے اور سر کے مابین خلا میں سے اسے دیکھنے لگی،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار پوچھا: کیا ابھی جی نہیں بھرا؟ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ آپ کو میری خاطر کس قدر مقصود ہے،ہر بار کہتی رہی کہ ابھی نہیں،اسی اثنا میں عمر رضی اﷲ عنہ آ گئے۔ انھیں دیکھتے ہی لوگ منتشر ہو گئے۔ اس پر رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ عمر کے آنے سے شیاطین جن و انس بھاگ کھڑے ہوئے۔‘‘[اشراق:ص ۳۳،۳۴] اس روایت میں ’’حبشیہ‘‘ یعنی حبشی عورت کے لفظ سے استدلال ہے کہ وہ ’’ناچ‘‘ رہی تھی،بچے اس کے اردگرد جمع تھے اوراس کا یہ ’’ناچ‘‘ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے دیکھا بلکہ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کو بھی دکھایا،جو اس بات کی گویا دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہر فن،رقاصہ کے ’’فن‘‘ سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ معاذاﷲ! حالانکہ اولاً اس روایت میں کلام ہے۔ گو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن صحیح غریب‘‘ اور علامہ البانی نے صحیح الجامع میں ذکر کیا ہے،لیکن یہ روایت زید بن حباب اخبرنی خارجۃ بن عبداللّٰہ قال انا یزید بن رومان عن عروۃ عن عائشۃکی سند سے مروی ہے۔ اوریہ اس سند سے غریب ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اشارہ کیا ہے۔ بلکہ