کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 41
تاآنکہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے نبوت سے سرفراز فرمایا۔
یہ روایت صحیح ابن حبان الاحسان [۸/۵۶]،الموارد[ص :۵۱۵ رقم :۲۱۰۰]البحر الزخار[ص ۲۴۱ ج ۲ رقم :۲۴۱]مختصراًالمطالب العالیہ [رقم :۴۲۱۲]،دلائل النبوۃ للبیہقی [۲/۳۳]،المستدرک [۴/۲۴۵]،التاریخ الکبیر للبخاری[۱/۱۳۰]مختصراً وغیرہ کتب میں مروی ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اسے اپنی الصحیح میں ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک صحیح ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح علی شرط مسلم کہا ہے۔ اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ لیکن شرط مسلم پر قرار دینا محل نظر ہے۔علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: رجالہ ثقات [المجمع : ۸/۲۲۶]،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے المطالب العالیہ میں کہا ہے : ھو حدیث حسن متصل و رجالہ ثقات یہ حدیث حسن متصل ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الخصائص الکبریٰ [۱/۲۱۹] میں اور علامہ محمد یوسف الشامی نے بھی سبل الہدیٰ[۲/۱۴۸] میں،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے اس کی تحسین نقل کی ہے اور علامہ البوصیری رحمہ اللہ نے بھی اتحاف الخیرۃ [۷/۵۷] میں وہی الفاظ کہے ہیں جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ہیں۔ بعض حضرات نے محمد بن عبداﷲ بن قیس کی وجہ سے اس پر کلام کیا ہے،مگر یہ درست نہیں۔ صحیح یہی ہے کہ یہ ر وایت حسن ہے۔(وللتفصیل موضع آخر)
اسی روایت پر غور فرمائیے،آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نبوت سے قبل امورجاہلیت کو دیکھنے کا ارادہ فرماتے ہیں اور خود وضاحت فرماتے ہیں کہ وہ ’’غنا اور مزامیر‘‘ کی مجلس تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے آپ کو اس سے ’’لطف اندوز ہونے‘‘ اور ان کے سننے سے محفوظ رکھا۔ اور پھر یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ اﷲ کی قسم ! اس کے بعد میں نے کبھی ان کے سننے کا ارادہ نہیں کیا۔ مگر غامدی صاحب اوران کے حاشیہ نشین فرماتے ہیں کہ آپ ایسی مجلسوں اور محفلوں سے لطف اندوز ہوتے اور اسے معیوب نہیں سمجھتے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ۔