کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 40
جادوگری اور میناکاری سے انھوں نے جو اوراق سجائے ہیں اور اپنی ذہنی عیاشی کو جواز بخشنے کے لیے آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کو ماہرین فن کے غنا اور پیشہ ور رقاصاؤں کے رقص سے لطف اندوز ہونے کا علی الاطلاق جو ثبوت انھوں نے پیش کیا وہ ان کی اپنی کج بحثی اور کج فہمی کا نتیجہ ہے۔ اس بارے میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت انتہائی افسوس کی بات ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے بارے میں غامدی صاحب کی اس جسارت کا کوئی نوٹس نہیں کہ وطن عزیز میں یہ بات بڑی دلیری سے کہی گئی کہ ’’آپ مغنی،مغنیات،رقاص اور رقاصاؤں کے فن سے لطف اندوز ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔‘‘بلکہ اسے ایک تحقیقی کاوش سمجھ کر قبول کر لیا گیا۔ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ۔ اس کے برعکس احادیث و سیرت کی کتابوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ انے ارشاد فرمایا:اہل جاہلیت جن باتوں کا اہتما م کرتے تھے،میں نے انھیں دیکھنے کا صرف دو بار ارادہ کیا مگر دونوں بار اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ ایک بار اعلیٰ مکہ میں قریشی نوجوان کے ساتھ بکریاں چراتا تھا کہ میں نے اسے کہا: آج رات تم بکریوں کی نگرانی کرو،میں رات مکہ مکرمہ میں نوجوانوں کی طرح قصہ گوئی کی محفل میں شرکت کرلوں۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ اس کے بعد میں نکلا اور ابھی مکہ کے پہلے ہی گھر کے پاس پہنچا تھا کہ میں نے گانے بجانے اور مزامیر کی آواز سنی،میں نے پوچھا: یہ کیا ہو رہا ہے ؟ لوگوں نے بتایا :کہ فلاں کی فلاں عورت سے شادی ہو رہی ہے۔ میں اسے سننے بیٹھ گیا۔ اﷲ نے میرے کان بند کردیئے اور نیند کے غلبہ کی وجہ سے میں ایسا سویا کہ سورج کی تمازت ہی سے میری آنکھ کھلی اور میں اپنے ساتھی کے پاس واپس چلا گیا۔اس کے بعد ایک رات پھر میں نے یہی بات کہی وار مکہ پہنچا۔ اُس رات بھی وہی واقعہ پیش آیا جو پہلے پیش آ چکا تھا کہ میں سورج طلوع ہونے تک سویا رہا۔ پھر میں وہاں سے واپس آ گیا۔ اﷲ کی قسم ! اس کے بعد میں نے اہل جاہلیت جو کچھ کرتے تھے،اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا