کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 39
ہیں،کیونکہ علامہ سید محمد مرتضیٰ الزبیدی نے اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین [ ج ۶ ص۴۹۴] میں امام نسائی رحمہ اللہ کی السنن الکبریٰ کے اسی باب اور اسی سند سے یہ روایت ذکر کی ہے اور اس کے آخر میں ’’ قَدْ نَفَخَ الشَّیْطَانُ فِیْ مَنْخَرَیْھَا‘‘ کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ اس لیے ان الفاظ کے بغیر السنن الکبریٰ میں یہ روایت محل نظر ہے۔ صحیح یہی ہے کہ السنن میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں۔ جس سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرت انے اس لونڈی کے گانے پر نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ’’اس کے نتھنوں میں شیطان پھونک لگاتا ہے۔‘‘ مگر افسوس اہل اشراق بڑی سادگی بلکہ عیاری سے مکمل روایت سے آنکھیں بند کرکے یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے گانے پر کراہت کا اظہارنہیں فرمایا۔ مرد کے لیے اگر اشعار پڑھنا اور ’’موسیقی‘‘ سے ہٹ کر سادہ طریقے پر اشعار پڑھ کر سنانا جائز ہے تو لونڈی بھی عورتوں کو اشعار سنا سکتی ہے۔ اسی بنا پر حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سننے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا۔البتہ اس لونڈی کے اشعار پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا،شیطان کے ساتھ اس کی تشبیہ اس کی کراہت کی بین دلیل ہے۔ مگر افسوس وہ تواہل اشراق کو نظر ہی نہیں آتی۔ مؤرخ اسلام علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اﷲ علیہ اسی واقعے کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ آپ نے گاناسن کر فرمایا:’’اس کے نتھنوں سے شیطان باجا بجاتا ہے۔‘‘ یعنی اس قسم کے گانے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتہ مکروہ سمجھا ہے۔[سیرت عائشہ:ص ۵۸] کیا آپ موسیقی سے لطف اندوز ہوتے تھے؟ اہل اشراق اس حوالے سے اس قدر دلیر ہیں کہ لکھتے ہیں : ’’بعض روایتوں سے معلو م ہوتا ہے کہ ماہر فن مغنی اور مغنیات،رقاص اور رقاصائیں عرب میں موجود تھیں ا ور نبی صلی اﷲعلیہ وسلم ان کے فن سے لطف اندوز ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ [اشراق:ص ۳۳] ہم ان کی اس جسارت پر اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں،الفاظ کی