کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 38
اس کا گانا نہ سننے دیتے۔ نیز یہ کہ آپ نے اس کے گانے پر نہ کراہت کا اظہار فرمایا اور نہ اسے سرزنش فرمائی۔[اشراق:ص ۳۳] حالانکہ پہلے ہم علامہ الزمخشری،علامہ الجوہری رحمہم اﷲ وغیرہ کے حوالے سے ذکر کر آئے ہیں کہ قینہ دراصل لونڈی کو کہتے ہیں،ماہر فن اورپیشہ ور مغنیہ ہی مراد لینا درست نہیں۔ لہٰذا جب وہ پیشہ ور تھی ہی نہیں،لونڈی تھی،اس کے گانے کا انداز ’’ماہرفن مغنیہ ‘‘ کا نہیں،اونچی آواز سے شعر پڑھنے کا تھا،چنانچہ اس نے اشعار پڑھے۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے وہ اشعار سنے،مگر کیا آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے اسے پسند فرمایا اور کسی قسم کی کراہت کا اظہارنہیں فرمایا؟ اس بارے میں جناب غامدی صاحب نے اپنا وہی روایتی کردار ادا کیا ہے جس کی نشاندہی ہم ’’عید پر موسیقی‘‘ کے عنوان کے تحت کر چکے ہیں۔ وہاں بھی ایک روایت میں ’’قینہ ‘‘ کی بنیاد پر لونڈی کو ماہر فن اور پیشہ ور مغنیہ قرار دیا گیا،حالانکہ روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے ’’ وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ‘‘کہ وہ مغنیہ نہ تھیں۔ مگر اہل اشراق کو صحیح بخاری میں یہ الفاظ تو نظر نہ آئے البتہ ’’قینہ ‘‘ کا لفظ نظر آگیا۔ بالکل اسی طرح السنن الکبریٰ للنسائی میں حضرت سائب رحمہ اللہ کی یہ روایت تو انھیں نظر آگئی مگر مسند امام احمد [ج:۳ ص: ۴۴۹ ] اورالمعجم الکبیر للطبرانی [ج:۷ ص:۷ ۱۸ ]میں حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت جواسی سند سے ہے نظر نہ آئی،جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب وہ لونڈی گانے لگی : فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَدْ نَفَخَ الشَّیْطَانُ فِیْ مَنْخَرَیْھَا۔ تونبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :شیطان نے اس کے نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔ یہی روایت علامہ ہیثمی رحمۃ اﷲعلیہ نے مجمع الزوائد [ج:۸ ص: ۱۳۰ ] میں بھی ذکر کی اور فرمایا: رواہ احمد والطبرانی و رجال احمد رجال الصحیح’’اسے امام احمد رحمہ اللہ اور طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور مسند احمد کے راوی الصحیح کے راوی ہیں۔ علاوہ ازیں معلوم یوں ہوتا ہے کہ السنن الکبریٰ کا مطبوعہ نسخہ جس نسخہ سے طبع ہوا ہے،اس میں حدیث کے آخری الفاظ جن سے گانے پر کراہت کا اظہار ہوتا ہے ساقط ہو گئے