کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 37
عرف اور حالات کے مطابق کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘گویا جس کے پاس جس قدر وسائل ہیں،وہ آلات موسیقی اور پیشہ ور گانے والوں کو اپنے ہاں مدعو کر کے مجلس موسیقی منعقد کرسکتا ہے،رقص و ناچ سے لطف اندوز ہو سکتا ہے؟
اِنّا للّٰہ و انا لیہ راجعون۔!
یہ اسلام کی ترجمانی نہیں ’’اسلام سازی ‘‘ہے اور خدمت اسلام کی بجائے ’’مرمت اسلام‘‘ ہو رہی ہے۔
فن موسیقی
’’موسیقی‘‘ کو باقاعدہ ’’فن‘‘ کے طور پر سند جواز مہیا کرنے کے لیے حضرت سائب بن یزید رضی اﷲ عنہ کی ایک روایت سے استدلال کیا گیا کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی،آپ نے سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : عائشہ ! کیا تم اس کو جانتی ہو؟ سیدہ نے کہا :جی نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ھٰذِہٖ قَیْنَۃُ بَنِیْ فُلَانٍ تُحِبِّیْنَ اَنْ تُغَنِّیَکِ فَغَنَّتْھَا ‘‘ یہ فلاں قبیلے کی گانے والی ہے۔ کیا تم اس کا گانا پسند کروگی ؟ چنانچہ اس نے سیدہ رضی اﷲعنہا کو گانا سنایا۔
غلط حوالہ اور غلط استدلال
اس روایت کے لیے اشراق [ص : ۳۲] میں سنن البیہقی الکبریٰ[رقم:۸۹۶۰] کا حوالہ دیا گیا ہے،مگر ہمیں امام بیہقی رحمہ اللہ کی السنن الکبریٰ میں تتبع بسیار کے باوجود یہ روایت نہیں مل سکی۔ اگر وہ السنن الکبریٰ للبیہقی کی کتاب،باب اور جلد وصفحہ کے حوالے کے ساتھ اس کے بارے میں مطلع فرمائیں گے تو ہم اہل اشراق کے شکر گزار ہوں گے۔
یہ روایت دراصل السنن الکبریٰ للنسائی [ج۵ ص ۳۱۰ رقم : ۸۹۶۰]میں ہے۔ اور اس روایت میں ’’قینہ ‘‘ کے لفظ سے استدلال کیا گیا کہ وہ ماہر فن اور پیشہ ور مغنیہ تھی اور پھر اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ’’اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم فن موسیقی کواصلاً باطل نہیں سمجھتے تھے،اگر ایسا ہوتا تو آپ پیشہ ور مغنیہ کو ٹوک دیتے یا کم از کم