کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 36
’’نکاح کے موقع پر موسیقی کے استعمال کو نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے زمانے اور تمدن کے لحاظ سے ضروری قرار دیا۔ موجودہ زمانے میں عرف اور حالات کے مطابق کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔[اشراق:ص ۳۱] اور دَف کے بارے میں تاریخ عرب سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ دَف آلہ موسیقی ہے جو ہاتھ سے بجانے والا ایک ساز ہے۔ ہم پہلے عرض کر آئے ہیں کہ ’’دَف‘‘ آٹا یا گندم صاف کرنے والی چھلنی کی مانند ہوتا تھا اس کے ساتھ گھنگرو بندھے ہوئے ہوں تو وہ دف نہیں،آلہ موسیقی ہوتا ہے۔ پھر نکاح کی تقریب ہویا عید کا روز یا کوئی اور خوشی کا موقع ان میں صرف دف ہی بجائی جاتی تھی۔ دَف سے تمام ’’آلات موسیقی‘‘ کا جواز ثابت کرناعلم وعقل کے اعتبار سے قطعاً غلط ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان مواقع پر دف کا ہی ذکر ہے،باقی ’’آلات‘‘ کا کیوں نہیں ؟ یہ کہنا محض فریب پر مبنی ہے کہ ’’دف کا استعمال آپ نے اپنے زمانے اور تمدن کے لحاظ سے ضروری قرار دیا،موجودہ زمانے میں عرف اور حالات کے مطابق کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔‘‘ کیا عرب تمدن میں اس وقت دیگر ’’آلات موسیقی‘‘ کا رواج نہ تھا؟ خود اشراق [ص :۷۹] میں تاریخ عرب کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’عرب میں آلات موسیقی تین قسم کے تھے،ایک تار والے جیسا کہ ستار،دوسرے پھونک سے بجانے والے،اور تیسرے ضرب لگا کر بجانے والے جیسے ڈھول،طبل،دف،بربط،ضج،ون،ونج،معزف،طنبور،کوبہ،قنین اور مزمار‘‘ لہٰذا عرب تمدن میں یہ آلات مستعمل تھے توا ن میں سے آپ کے سامنے صرف ’’دَف‘‘ کا ہی بجایا جانا اور اس کے بجائے جانے پر آپ کا انکار نہ کرنا بلکہ دیگر آلات موسیقی کی مذمت بیان کرنا،جیسا کہ آئندہ ان شاء اﷲ اس کی تفصیل آئے گی۔کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایسے موقع پر صرف دَف کا جواز ہے۔ خوشی کے لمحات میں ڈھول اور طبل وغیرہ کا قطعاً کوئی جوازنہیں۔ موسیقی نواز حضرات کا دَف کے جواز سے تمام آلات موسیقی کو جائز قرار دینا سراسر دھوکا ہے بلکہ آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ ’’موجودہ زمانے میں