کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 35
علامہ شاطبی رحمہ اللہ بھی سفر جہاد میں اشعار اور حُدِی خوانی سے معروف ’’غنا‘‘ پر استدلال کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و ھذا حسن لکن العرب لم یکن لھا من تحسین النغمات ما یجری مجری ما الناس علیہ الیوم بل کانوا ینشدون الشعر مطلقاً من غیر أن یتعلموا ھذہ الترجیعات التی حدثت بعدھم بل کانوا یرفعون الصوت ویمططونہ علی وجہ یلیق بأمیۃ العرب الذین لم یعرفوا صنائع الموسیقی۔ [الاعتصام :۱/۲۷۱]
کہ ایسے موقعے پر اشعار پڑھنا درست ہے لیکن عرب کے اچھی آواز سے نغمے اس طرح نہیں جس طرح آج لوگ نغمے گاتے ہیں۔ بلکہ عرب ان ترجیعات کو سیکھے بغیر جو بعد میں پیدا ہوئی ہیں مطلقاً شعرپڑھتے تھے۔ اور وہ شعر پڑھتے ہوئے آواز کو باریک کرتے اور اسے ایسے طریقے پر کھینچتے تھے جو ان کے اُمی ہونے کے لائق ہوتی جو فن موسیقی سے واقف نہ تھے۔
بلکہ حُدِی خوانی سے معروف موسیقی پر استدلال کے بارے میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ ایسا قیاس ہے جیسے کوئی سود کو بیع وشراء پر اور نکاح متعہ کو نکاح حقیقی پر اورحلالہ کو نکاح پر قیاس کرے۔ کجا سادہ طور پر اہل عرب کا حُدِی خوانی کرنااور کجا معروف موسیقی!! شتان بینھما۔
آلات موسیقی
جناب غامدی صاحب اور ان کے ہم نوا نے اسی عنوان کے تحت صحیح بخاری سے نکاح کے موقع پر لونڈیوں کے دف بجانے اور گانے کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے عرب میں کثرت سے استعمال ہونے والے آلہ موسیقی دَف پر کوئی پابندی عائد نہیں فرمائی۔[اشراق:ص ۳۰]
اسی موضوع کی ایک اور روایت کے بعد یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ :