کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 34
کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ سفر میں حُدِی خوانی ہوتی تھی،آپ صلی اﷲعلیہ وسلم اس سے مسرور ہوتے تھے۔ اور پھر اسی بنیاد پر یہ بھی فرمایا گیا کہ ’’حُدِی خوانی‘‘ عرب کی اصناف موسیقی ہی میں شامل ہے۔ بلاشبہ حُدِی خوانی اور اس کی تحسین و توصیف ثابت مگر غور طلب یہ بات ہے کہ بجائے خود یہ ’’حُدِی خوانی ‘‘ کیا ہے ؟ اور اس کی مروجہ موسیقی اور گانے کی اصناف وانواع سے کس حد تک موافقت ہے؟ خود اشراق کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ: ’’حُدِی خوانی اصل میں اہل بادیہ کا گانا ہے۔ گانے کی یہ صنف خانہ بدوشی کے لحن اور ان کے جذبات غم کی تعبیر کرنے والے سادہ اور فطری نغموں سے مناسبت رکھتی ہے۔ جن سے ان خانہ بدوشوں کی بدوی طبیعت مسرور ہوتی ہے۔‘‘ [اشراق : ص :۲۹ بحوالہ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام : ۵/۱۱۷] جس میں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ حُدِی خوانی اصل میں اہل بادیہ کا گانا ہے۔ اسے معروف غنا اور گانے کے مروجہ اسلوب سے کوئی مناسبت نہیں۔ علامہ الجوہری رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ حُدِی خوانی دراصل ’’سوق الابل والغناء لھا ‘‘ اونٹوں کو چلانے اور ان کے لیے گانے کا نام ہے [الصحاح : ص ۲۳۹،ج ۶] یہی کچھ دیگر ائمہ لغت نے لکھا ہے۔ حافظ ابن حجررحمۃا ﷲعلیہ رقم طراز ہیں۔ ’’حُدِی خوانی ‘‘سے ایسے غنا کا جواز ثابت ہوتا ہے جس میں لمبی آواز نکالی جاتی ہے،جسے نصب کہتے ہیں،مگر: افرط قوم فاستدلوا بہ علی جواز الغناء مطلقاً بالالحان التی تشتمل علیھا الموسیقی وفیہ نظر [فتح الباری :۱۰/۵۴۳] ایک قوم نے اس میں افراط سے کام لیا تواس سے مطلقاً غنا جو خوش الحانی اور موسیقی پر مشتمل ہو،کے جواز پر استدلال کیا ہے اور یہ استدلال محل نظر ہے۔ غور فرمائیے،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حُدِی کو ’’موسیقی‘‘ کہنے والوں کے بار ے میں کیا فرما رہے ہیں۔