کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 33
بچوں اور لونڈیوں کا معاملہ تھا۔ اسے معروف معنی میں ’’جشن آمد‘‘ قرار دینا کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں۔
جناب غامدی صاحب اور ان کے ہمنوا اسی واقعہ کے نتیجہ میں لکھتے ہیں :
’’اس موقع پر عام عورتوں اور بچوں اور مغنیات نے دف بجا کر استقبالیہ نغمے بھی گائے۔ جنھیں نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ چنانچہ ان کی بنیاد پر یہ بات پورے اطمینان سے کہی جا سکتی ہے کہ جشن یا خوشی کی تقریب کے موقع پر گیت گائے جا سکتے ہیں اور آلات موسیقی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘[اشراق : ص ۲۶]
حالانکہ آپ پڑھ آئے ہیں کہ اس موقع پر ’’عام عورتوں ‘‘ اور ’’مغنیات‘‘ کی بنیادہی ثابت نہیں توان کے دف بجا کر استقبالیہ نغمے گانے کے کیا معنی ؟ بچوں اور لونڈیوں نے استقبالیہ نغمے گائے اور دف بھی بجائی،مگر محض دف سے تمام ’’آلات موسیقی‘‘ کا جواز کہاں سے در آیا؟ آپ زیادہ سے زیادہ اسے ’’آلہ موسیقی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ محض اس کی بنیاد پر تمام ’’آلات موسیقی‘‘ کا جواز ہمارے متجدین کا علمی کرشمہ ہے۔
دف کیا ہے ؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:’’ یقال لہ ایضا الکربال وھو الذی لا جلاجل فیہ‘‘دف کو کربال یعنی چھلنی بھی کہا جاتا ہے (جس سے آٹا چھانا جاتا ہے) جس کے ساتھ گھنگرو بندھے ہوئے نہ ہوں۔[فتح الباری: ۲/۴۴۰ ]
المنجد ص :۲۱۲ میں اس کی تصویر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ دف بچے بجاتے تھے یا لونڈیاں،پیشہ ور مغنیہ نہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں اور یہ بات تو جناب غامدی صاحب کو بھی تسلیم ہے کہ’’ اناڑی کا بے تال انداز سے طبلے کا بجانا موسیقی نہیں ہے۔‘‘[اشراق : ص :۸۰ ] لہٰذا بچوں اور لونڈیوں کا دف بجانا ’’موسیقی‘‘ کیسے قرار پایا؟
سفر میں موسیقی
اس عنوان کے تحت جناب غامدی صاحب اور ان کے ہم نوا نے صحیح بخاری وغیرہ