کتاب: اسلام اور موسیقی - صفحہ 32
کہ وہ ثقات سے منکر روایات بیان کرتا ہے۔ انھوں نے الکامل میں اس کی چند منکر روایات ذکر کی ہیں اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کے بارے میں فرمایا ہے: مَا ھٰذِہٖ اِلَّا مَنَاکِیْرُ وَبَلَایَا یہ اس کی مناکیر و بلایا میں سے ہیں۔ [میزان :۴ /۱۱۹،۱۲۰]حافظ صالح جزرہ فرماتے ہیں : شیخ ضریر لا یدری ما یقولکہ وہ نابینا شیخ ہے،انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ثانیاً: امام بیہقی نے دلائل النبوۃ [۲/۵۰۸] میں اور انہی کے حوالے سے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ [ج :۳ ص :۲۰۰] میں ابوخیثمہ مصعب بن سعید ہی کی روایت میں نَحْنُ قَیْنَاتٌ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ کی بجائے نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِکے الفاظ ہی نقل کیے ہیں۔ اب یہ علم کی کون سی معراج ہے کہ ابوخیثمہ کی روایت میں جو الفاظ دیگر ثقات کے موافق ہیں،انھیں تو نظر انداز کر دیا جائے اور جس میں اس کے تفرد کی بنا پر غلطی کا امکان ہے،ان سے استدلال کیا جائے۔ ثالثاً: معجم طبرانی صغیر کی اسی روایت میں فَاِذَا جَوارِیْ یَضْرِبْنَ بِالدَّفِّ وَیَقُلْنَ نَحْنُ قَیْنَاتٌ مِنْ بَنِی النَّجَّارِکے الفاظ ہیں،جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ’’قینات‘‘ یہی ’’جواری ‘‘ تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ نہ تھیں۔ رابعاً: ہم پہلے دلائل سے واضح کر آئے ہیں کہ ’’قینات‘‘ کا اطلاق جواری،لونڈیوں پرہوتا ہے۔ اس کے معنی صرف اور صرف ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ کرنا محض ہوس ناکی کا نتیجہ ہے۔ خامساً:صحیح بخاری میں مختصراً یہی واقعہ مذکور ہے اور اس میں ’’حَتَّی جَعَلَ الْاِمَآئُ یَقُلْنَ ‘‘ کے الفاظ ہیں [بخاری:رقم ۳۹۲۵] یہاں تک کہ لونڈیوں نے کہا کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ اور حافظ ابن حجر نے ذکر کیا ہے کہ لوگ مدینہ طیبہ کے گھروں اور گلیوں میں تھے ’’وَالْغِلْمَانُ وَ الْخَدَمُ ‘‘ بچے اور خدام کہہ رہے تھے۔ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں [فتح الباری: ص ۲۶۱،ج ۷] صحیح مسلم [ ج ۲،ص ۴۱۹] میں بھی یہی ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر تھے جب کہ ’’ تَفرق الْغِلْمَانُ وَ الْخَدَمُ فی الطریق‘‘ بچے اور خدام گلیوں میں تھے۔ لہٰذا آپ کی تشریف آوری پر یہ جو کچھ ہوا،وہ